امریکہ نے افغان حکومت کے شعبہ اطلاعات اور میڈیا کے سربراہ، دوا خان مینہ پال کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ طالبان نے مینا پال پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، اس لئے ان رپورٹس پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔ جب کہ اس بارے میں بھی ناقابل تردید اطلاعات ہیں کہ طالبان اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں شہری آبادی کے خلاف مظالم اور بدلہ لینے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
جمعے کے روز وائٹ ہاؤس کی ترجمان، جین ساکی نے اپنی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل سے انہیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے گا، تو یہ ان کی بھول ہے اور طالبان کو ایسے ہتھکنڈوں سے باز رہنا ہو گا۔
جین ساکی کا کہنا تھا کہ عسکری مہم جوئی کے بجائے طالبان کو چاہیے کہ وہ اپنی توانائی امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کریں۔ ترجمان کے بقول، ہم زور دے کر کہیں گے کہ وہ ایسا ہی مثبت عمل کریں، اور افغان عوام کو اسی کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
جین ساکی نے کہا کہ کئی عشروں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ طالبان اپنی توانائی امن عمل کو مضبوط اور خطے کو مستحکم کرنے پر مرکوز کریں، اس میں افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملکوں کا مفاد وابسطہ ہے۔
امریکی فوج کے انخلا سے متعلق صدر بائیڈن کے اعلان کا ذکر کرتے ہوئے، ترجمان نے کہا کہ حکومت سنبھالنے کے فوری بعد امریکی صدر نے واضح طور پر کہا تھا کہ 20 سالہ لڑائی کو ختم ہونا چاہیے اور وقت آ گیا ہے کہ امریکی فوجیں وطن واپس آئیں۔
جین ساکی کے مطابق، صدر جو بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ افغان حکومت اور افغانستان کی قومی دفاعی افواج کے پاس درکار تربیت اور ہتھیار موجود ہیں جن کی مدد سے وہ ملکی دفاع کا کام انجام دے سکتے ہیں۔
طالبان نے دوا خان کے قتل کی ذمہ داری قبول کر لی
افغانستان میں طالبان نے افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کابل کے دارالامان روڈ پر دوا خان مینہ پال کو نشانہ بنایا گیا۔
افغان میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب چند دن قبل دارالحکومت کابل میں افغان وزیرِ دفاع کے گھر کو بھی خود کش حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے وقت افغان وزیرِ دفاع گھر پر موجود نہیں تھے۔
یاد رہے کہ طالبان نے خبردار کیا تھا کہ وہ فضائی حملوں کے جواب میں افغان حکومت کے اعلیٰ حکام کو نشانہ بنائیں گے۔
دوا خان مینہ پال اس سے قبل افغان صدر ڈاکٹر محمد اشرف غنی کے نائب ترجمان کے طور پر کئی برس تک خدمات انجام دیتے رہے تھے۔
دوا خان مینہ پال باقاعدگی سے سوشل میڈیا پر افغان حکومت کی پالیسی اور حکمت عملی کے حوالے سے بیانات جاری کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف ٹیلی وژن پروگراموں اور صحافیوں کو افغان حکومت کی کارروائیوں کے بارے میں بھی اطلاعات فراہم کرتے تھے۔
افغانستان کی قومی مصالحت کی اعلیٰ کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے طالبان کی جانب سے دوا خان مینہ پال کی ہلاکت کی شدید مذمت کی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر انہوں نے ایک پیغام میں کہا کہ قتل و غارت، تشدد اور خون ریزی کے ذریعے افغان بحران کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ اس وقت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان صوبہ قندھار، ہرات اور ہلمند کے دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔ ایسے میں افغان حکام کی ٹارگٹ کلنگ کا ایک نیا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔
کابل میں مقیم تجزیہ کار نجیب اللہ آزاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان کے تمام علاقوں میں لڑائی جاری ہے اور جہاں لڑائی مستقل بنیادوں پر جاری نہیں ہے وہاں ٹارگٹ کلنگ شروع ہو گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ایسے تمام افراد کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے جو کہ ذرائع ابلاغ سے جڑے ہوں اورحکومتی پیغام مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کر سکتے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دواخان مینہ پال سرکاری میڈیا مشینری کی قیادت کر رہے تھے۔ یہی ان کی ہلاکت کا سبب بھی ہے۔ ان کے بقول اس وقت لڑائی کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی جنگ بھی جاری ہے اور ہر فریق کی خواہش ہے کہ اس کے مؤقف کو موثر انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔