جاپان میں گیارہ مارچ کو آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری پلانٹ کی تباہی نے جوہری تنصیبات کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے خوفناک پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب اس تباہی نے ایک مرتبہ پھر ایٹمی ایندھن کو تلف کرنے کے لیے عارضی طور پر اسے جوہری پلانٹ میں رکھنے کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا ہے جس میں موجود تابکاری متحرک رہتی ہیں۔
گذشتہ چھ عشروں میں دنیا میں چار سو کے قریب جوہری پلانٹس بنائے گئے ہیں۔ جبکہ ان میں سے کسی بھی جوہری پلانٹ کے پاس مہلک ایٹمی ایندھن تلف کرنے کے لیے کوئی مستقل اور طویل المدتی حل موجود نہیں ہے۔
لنڈر گنٹر واشنگٹن میں ایک ماحولیاتی تحفظ کے ایک گروپ سے وابستہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ایٹمی مواد کو تلف کرنے کا مسئلہ کبھی حل نہیں کیا جا سکا۔ اور بہت ممکن ہے کہ کبھی حل کیا جا بھی نہ سکے۔
دنیا بھر میں، تلف شدہ ایٹمی مواد جوہری پلانٹس میں یا تو کنکریٹ سے بنے پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے تالابوں یا لوہے اور کنکریٹ کی موٹی تہوں کے اندرجوہری پلانٹ کی عمارتوں کے باہر رکھا جاتا ہے۔
لنڈا کا کہناہے کہ فوکوشیما جوہری پلانٹ کی طرز پر امریکہ میں 23 جوہری پلانٹس موجود ہیں۔ تالابوٕ ں میں پڑا استعمال شدہ ایٹمی ایندھن ان عمارتوں کے بالکل ساتھ ہے۔ جس پر حملہ کرنا آسان ہے۔ اگر کسی بھی حادثے میں یہ تالاب کھل جائیں تو استعمال شدہ ایٹمی مواد ماحول میں شامل ہوسکتا ہے۔ جس سے بہت زیادہ تابکاری پھیل سکتی ہیں۔
مگر جوہری صنعت سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ جوہری پلانٹس پر ہی ایٹمی ایندھن کو ٹھکانے لگائے جانے کے حوالے سے ناقدین مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں۔ایڈریان ہیمرایٹمی توانائی کے ایک ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ ایٹمی تنصیبات کی نگرانی سے متعلق ایک ادارے کی رائے میں موجودہ طریقوں سے استعمال شدہ جوہری مواد کو ایک سوبرس تک محفوظ رکھاجاسکتاہے۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے سین اونافری نیوکلیئر پلانٹ میں استعمال شدہ ایٹمی مواد لوہے اور سیمنٹ کے بینکروں میں رکھا گیا ہے۔ امریکی حکومت کے ایک ادارے کے مطابق وہاں موجود ایٹمی مواد اس 70 ہزار میٹرک ٹن کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو گذشتہ س60 برسوں کے دوران امریکہ کے جوہری پلانٹس نے استعمال کیا ہے۔
اڈریان ہیمر کے مطابق فوکوشیما کے حالیہ حادثے کے بعد جہاں استعمال شدہ یورینیم کی وجہ سے بڑی تعداد میں تابکاری خارج ہوئی وہیں امریکہ میں 67 مقامات پر موجود ایک سو چار ایٹمی ریکٹرز کا استعمال شدہ جوہری مواد ٹھکانے لگانے پر ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہوگئی ہے۔
2002ءمیں امریکہ استعمال شدہ جوہری مواد ٹھکانے لگانے کے حل کے قریب پہنچ گیا تھا۔ امریکی کانگریس نے امریکی ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس سے 160 کلومیٹر دور یوکا ماؤنٹین پراجیکٹ کے تحت جوہری فضلے کو دفن کرنے کے لیے گہرا کنواں کھودنے کے لیے عندیہ دے دیا تھا۔ مگر یہ پروجیکٹ شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہا ۔ ناقدین کے خیال میں اس مقام تک استعمال شدہ ایٹمی مواد لے جانا خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ 2009ءمیں اس کے زیر ِ زمین تنصیب پر اربوں ڈالروں کی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد صدر اوباما نے یہ پراجیکٹ بند کردیا۔
یوکا پراجیکٹ کے مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی کہنا غیر یقینی ہے۔ایڈریان ہیمرکے مطابق اسے دوبارہ قابل ِ استعمال بنایا جا سکتا ہے جبکہ اس کے بند ہونے میں پیشہ ورانہ مسائل کے بجائے سیاسی وجوہات تھیں۔
جب تک ایٹمی تنصیبات کے ترک شدہ مواد کے لیے کوئی مستقل حل نہیں ڈھونڈا جا سکتا تب تک دنیا بھر میں موجود چار سو ایٹمی ریکٹرز کا استعمال شدہ ایٹمی فضلہ ایٹمی ریکٹرز کی عمارتوں کے پاس پڑا رہے گا۔
واشنگٹن کے ایک ماحولیاتی گروپ ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کرس فلیون کے مطابق ایٹمی ایندھن کوٹھکانے لگانے کے طریقے جوہری توانائی کی وکالت کرنے والوں کے لیے بھی مسئلہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاپانی اپنا جوہری فضلہ اپنے ری ایکٹروں کے پاس ہی جمع کررہے ہیں ۔ اسی بنا پر فوکوشیماحادثے کے زیادہ نقصانات ہوئے ۔
ایک جوہری پلانٹ کی عمر تقریبا چالیس برس ہوتی ہے۔ ایٹمی توانائی کے ادارے کے مطابق امریکہ میں 61 جوہری پلانٹس اپنے آپریشنز کو بڑھانے کے لیے اپنے لائسنسوں میں مزید 20 سال کا اضافہ چاہتے ہیں۔
یہ ادارہ مزید بیس سال کے لائسنس کی اجازت دینے کے حوالے سے غور کر رہا ہے جس سے جوہری پلانٹ کی عمر اسی سال تک بڑھ جائے گی۔ اس تجدید سے پہلے لوگ یہ چاہیں گے کہ جوہری فضلے کوٹھکانے لگانے کے بہتر طریقے ڈھونڈلیے جائیں۔