واشنگٹن —
روس میں صدر ولادی میر پیوٹن کی حکومت کے زیرِ عتاب ایک میوزک بینڈ کی دو ارکان کو جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔
ان گلوکاراؤں کی رہائی روسی پارلیمان کی جانب سے گزشتہ ہفتے منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے تحت عمل میں آئی ہے جس کے تحت روس کے جیلوں میں موجود ہزاروں قیدیوں کو مختلف بنیادوں پر عام معافی دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
پیر کو بینڈ کی رکن ماریہ ایلوخینہ اور نادیزدہ ٹولونی کووا پیر کو سائبیریا کے دو مختلف شہروں میں واقع جیلوں سے رہا کیا گیا۔ بینڈ کی تیسری رکن یکرٹیرینا سموتسیوچ کو 2012ء میں سزا کی معطلی کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق دونوں گلوکاراؤں کے چھوٹے بچے ہیں لہذا وہ نئے قانون کے تحت معافی کی مستحق ہیں۔ دونوں خواتین کی سزا کی مدت مارچ 2014ء میں پوری ہونی تھی۔
بینڈ کی تینوں ارکان نے 2012ء کے اوائل میں ماسکو میں مرکزی آرتھوڈاکس گرجا گھر میں صدر ولادی میر پیوٹن کی ہجو میں دعائیہ نغمہ گایا تھا جس پر ایک عدالت نے انہیں چرچ میں غل غپاڑہ کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات میں قید کی سزا سنائی تھی۔
بینڈ کی ارکان کا کہنا تھا کہ ان کی اس حرکت کا مقصد تیسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے والے ولادی میر پیوٹن کو حاصل آرتھوڈاکس چرچ کی حمایت پر احتجاج ریکارڈ کرانا تھا۔
بینڈ کی ارکان کو سزادینے کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا تھا اور کئی حلقوں نے اسے کریملن کی جانب سے مخالفین کے خلاف جاری انتقامی کاروائی کا حصہ قرار دیا تھا۔
اپنی رہائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بینڈ کی دونوں ارکان نے ماسکو حکومت پر کڑی تنقید کی اور اپنی رہائی کو کریملن کا سیاسی تماشا اور عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش قرار دیا۔
دونوں ارکان کا کہنا تھا کہ روسی حکومت کی جانب سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مقصد یورپی ممالک کو فروری میں سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس سے باز رکھنا ہے جو روسی حکومت کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر تشویش کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل روسی حکومت نے کریملن کے کڑے ناقد اور تیل کے کاروبار سے وابستہ سابق ارب پتی تاجر میخائل خودرو وسکی کو بھی نئے قانون کے تحت جیل سے رہا کیا تھا جو گزشتہ 10 سال سے قید میں تھے۔
ان گلوکاراؤں کی رہائی روسی پارلیمان کی جانب سے گزشتہ ہفتے منظور کیے جانے والے ایک نئے قانون کے تحت عمل میں آئی ہے جس کے تحت روس کے جیلوں میں موجود ہزاروں قیدیوں کو مختلف بنیادوں پر عام معافی دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔
پیر کو بینڈ کی رکن ماریہ ایلوخینہ اور نادیزدہ ٹولونی کووا پیر کو سائبیریا کے دو مختلف شہروں میں واقع جیلوں سے رہا کیا گیا۔ بینڈ کی تیسری رکن یکرٹیرینا سموتسیوچ کو 2012ء میں سزا کی معطلی کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق دونوں گلوکاراؤں کے چھوٹے بچے ہیں لہذا وہ نئے قانون کے تحت معافی کی مستحق ہیں۔ دونوں خواتین کی سزا کی مدت مارچ 2014ء میں پوری ہونی تھی۔
بینڈ کی تینوں ارکان نے 2012ء کے اوائل میں ماسکو میں مرکزی آرتھوڈاکس گرجا گھر میں صدر ولادی میر پیوٹن کی ہجو میں دعائیہ نغمہ گایا تھا جس پر ایک عدالت نے انہیں چرچ میں غل غپاڑہ کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات میں قید کی سزا سنائی تھی۔
بینڈ کی ارکان کا کہنا تھا کہ ان کی اس حرکت کا مقصد تیسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے والے ولادی میر پیوٹن کو حاصل آرتھوڈاکس چرچ کی حمایت پر احتجاج ریکارڈ کرانا تھا۔
بینڈ کی ارکان کو سزادینے کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا تھا اور کئی حلقوں نے اسے کریملن کی جانب سے مخالفین کے خلاف جاری انتقامی کاروائی کا حصہ قرار دیا تھا۔
اپنی رہائی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بینڈ کی دونوں ارکان نے ماسکو حکومت پر کڑی تنقید کی اور اپنی رہائی کو کریملن کا سیاسی تماشا اور عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش قرار دیا۔
دونوں ارکان کا کہنا تھا کہ روسی حکومت کی جانب سے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مقصد یورپی ممالک کو فروری میں سوچی میں ہونے والے سرمائی اولمپکس سے باز رکھنا ہے جو روسی حکومت کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ پر تشویش کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل روسی حکومت نے کریملن کے کڑے ناقد اور تیل کے کاروبار سے وابستہ سابق ارب پتی تاجر میخائل خودرو وسکی کو بھی نئے قانون کے تحت جیل سے رہا کیا تھا جو گزشتہ 10 سال سے قید میں تھے۔