رسائی کے لنکس

ارسلا رحمانی کا قتل امن عمل کے لیے دھچکہ ہے: تجزیہ کار


کابل: مولوی ارسلا رحمانی کے گھر کے سامنے پہرے پر تعینات ایک فوجی
کابل: مولوی ارسلا رحمانی کے گھر کے سامنے پہرے پر تعینات ایک فوجی

امن شوریٰ کا کام بھی اب تک غیر تسلی بخش رہا ہے، اور بظاہر حکومت اور شوریٰ کے مابین افہام و تفہیم کا فقدان نظر آتا ہے: اظہار گیلانی

افغانستان کی قومی اسمبلی کےرکن اظہار گیلانی اور ’اسٹریٹفر‘ ادارے کے ڈائریکٹر کامران بخاری نے افغانستان میں امن کونسل کے ایک رکن کے قتل کو امن کے عمل کے لیے دھچکہ قرار دیا ہے۔

پروگرام ’اِن دی نیوز‘ میں اظہار گیلانی نے کہا کہ امن شوریٰ کا کام بھی اب تک غیر تسلی بخش رہا ہے۔اتوار کو وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ بظاہر حکومت اور شوریٰ کے مابین افہام و تفہیم کا فقدان نظر آتا ہے۔

یاد رہے کہ اطلاعات کے مطابق ایک طالبان لیڈر نے ارسلا رحمانی کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس سوال پر کہ مسئلے کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے، اظہار گیلانی کے بقول، اول یہ کہ کرزئی حکومت بہت کمزور ہے، دوم غیر ملکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کا معاملہ درپیش ہے، جسے تاریخی طور پر افغان پسند نہیں کیا کرتا، وہ فوج بیشک مسلم ہو یا غیر مسلم؛ سوم ، افغانستان کی سیاسی جماعتیں بہت کمزور ہیں، جس کے باعث افغان لوگ ایک شش و پنج میں مبتلا ہیں۔

کامران بخاری کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق تمام عناصر کا ایک ہی صفحے پر ہونا ضروری ہے، جوکہ، اُن کے بقول، اس وقت نہیں ہے۔ ’یہ سب لوگ جب تک اتفاق رائے نہیں کریں گے یا کسی ایک مؤقف تک نہیں پہنچیں گے، تب تک، امن عمل نہ اِدھر ہے نہ اُدھر‘۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ امن عمل بالکل ناکام ہوچکا ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ امن عمل کامیاب ہے، کیونکہ، اُن کے بقول، متعلق تمام جزو اور ارکان بکھرے اور جدا جدا ہیں، اور ان کی رائے آپس میں ملتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG