رسائی کے لنکس

غزہ میں تقریباً 100یرغمال’یقینی طور پر زندہ ہیں‘: اسرائیلی مذاکرات کار


 اسرائیلی یرغمالوں کے خاندان ان کی رہائی کےلیے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئےایک مظاہرے کے دوران ، فوٹو25 اے ایف پی اپریل 2024
اسرائیلی یرغمالوں کے خاندان ان کی رہائی کےلیے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئےایک مظاہرے کے دوران ، فوٹو25 اے ایف پی اپریل 2024

  • ایک اسرائیلی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کے زیر حراست لگ بھگ 100 یرغمال یقینی طور پر زندہ ہیں۔
  • اسرائیل اس وقت تک جنگ روکنا قبول نہیں کر سکتا جب تک کسی معاہدے کے تحت یرغمالوں کی رہا ئی عمل میں نہ آجائے۔مذاکرات کار
  • اہلکار کے مطابق اسرائیلی مذاکراتی ٹیم نے بائیڈن کے منصوبے کو قبول کرنے کا اشارہ دے دیا ہے ۔
  • "ہم توقع کرتے ہیں اور انتظارہے کہحماس 'ہاں' کہے۔"مذاکرات کار

ایک سینئر اسرائیلی مذاکرات کار نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ میں حماس کے زیر حراست لگ بھگ 100 یرغمال یقینی طور پر زندہ ہیں اور اسرائیل اس وقت تک جنگ روکنا قبول نہیں کر سکتا جب تک کہ تمام اسیروں کی کسی معاہدے کے تحت رہائی عمل میں نہ آجائے۔

حماس کے عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر کو 251 لوگوں کو یرغمال بنایا تھا، جن میں سے اسرائیل کا خیال ہے کہ 116 ابھی تک وہاں ہیں، جن میں وہ 41 بھی شامل ہیں جن کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اے ایف پی نے کہا ہے کہ عہدے دار نےجو عوامی طور پر بات کرنے کےمجاز نہیں تھے،اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ، ’’ کوئی 100 کے قریب(یرغمال) یقینی طور پر زندہ ہیں۔‘‘

اہلکار نے مزید کہا کہ ان میں سے زیادہ تر حماس کے عسکریت پسندوں کے پاس قید ہیں اور یہ کہ ’’ہم انہیں زیادہ دیر تک وہاں نہیں چھوڑ سکتے، وہ مر جائیں گے۔‘‘

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ،جنگ بندی اور حماس کےپاس قید یرغمالوں کی رہائی سمیت تین مرحلوں پر مشتمل ایک تجویز کا انکشاف کیا تھا ۔

بائیڈن نے کہا تھاکہ پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی " بھر پور اور مکمل جنگ بندی" شامل ہو گی ، جس میں اسرائیلی فورسز "غزہ کے تمام آبادی والے علاقوں" سے انخلاء کریں گی ۔

اے ایف پی کے مطابق اہلکار نے کہا کہ اسرائیل یرغمالوں کے بارے میں کسی معاہدے سے قبل حماس کے ساتھ جنگ ختم نہیں کر سکتا کیونکہ عسکریت پسند " اپنے وعدے کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں... اور مذاکرات کو 10 سال یا اس سے زیادہ عرصے کےلیے طول دےسکتے ہیں۔"

عہدے دار نے کہا، " ہم اس وقت، معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے، جنگ ختم کرنے کا عہد نہیں کر سکتے۔"

اہلکار نے کہاکیونکہ معاہدے کی ایک شق کے مطابق ہم پہلے مرحلے کے دوران، دوسرے مرحلے کے بارے میں گفت وشنید کریں گے۔ دوسرا مرحلے میں مردوں اور مرد فوجی یرغمالوں کی رہائی عمل میں آئے گی۔

اہلکار نے کہا کہ اسرائیلی مذاکراتی ٹیم نے بائیڈن کے منصوبے کو قبول کرنے کا اشارہ دے دیا ہے ۔

"ہم توقع کرتے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ حماس 'ہاں' کہے،" اہلکار نے مزید کہا۔

اسرائیلی حکومت نے ابھی تک عوامی طور پر بائیڈن کے منصوبے کی منظوری نہیں دی ہے۔

اے ایف پی نے کہا ہے کہ عہدے دارنے کہا کہ اگر ہم حماس کے ساتھ کوئی معاہدے طے نہیں کر پاتے ، تو اسرائیلی ڈیفینس فورس،یا آئی ڈی ایف ،غزہ کی پٹی میں لڑائی کی شدت کو اس سے کم نہیں کرے گی جتنی شدت سے وہ اس وقت لڑ رہی ہے ۔

ان کے الفاظ تھے"ایک مختلف انداز میں، لیکن ایک شدید انداز میں۔"

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سات اکتوبر کو اس کے بعد شروع ہوئی جب حماس نے اسرائیل پر ایک غیر معمولی حملہ کیا جس کے نتیجے میں 1,194 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی جوابی مہم میں کم از کم 37,347 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG