فلسطینی اتھارٹی نے، امن مذاکرات میں تعطل سے مایوس ہو کر، اقوامِ متحدہ کی پوری رکنیت کی درخواست دے دی ۔ یہ درخواست زیرِ غور ہے اگرچہ امریکہ کی طرف سے اس کی سخت مخالفت ہو رہی ہے ۔
لیکن فلسطینی اقوامِ متحدہ کی ثقافتی تنظیم، یونیسکو کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ، جس پر اسرائیل اور امریکہ ناراض ہوئے۔ اسرائیل نے 1967 کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا، ان میں مزید رہائشی بستیاں بسانے کے اقدامات کیے۔ چار بڑی طاقتوں کے ثالثی کے گروپ مڈایسٹ کوارٹٹ نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی ناکام کوشش کی ۔
اسرائیل نے کہا کہ وہ کسی پیشگی شرائط کے بغیر، براہ راست مذاکرات شروع کرنے کو تیار ہے۔ لیکن فلسطینیوں نے کہا کہ براہِ راست مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں ہوں گے جب تک اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے پر بستیوں کی تعمیر جاری رکھے گا ۔
فلسطینیوں کے ریسرچ گروپ، PASSIA کے سربراہ، مہدی عبد الہادی کہتے ہیں کہ امن کے امکانات کے بارے میں فلسطینی پر امید نہیں ہیں ۔’’ہم جانتے ہیں کہ آنے والے عشرے میں ہمارا خون بہتا رہے گا کیوں کہ کسی سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ واشنگٹن منظر سے غائب ہے ۔ یورپ دوسری چیزوں میں مصروف ہے ۔ عرب دنیا پھوٹ کا شکار ہے ۔اور جو نیا نظام ہے وہ ابھی اپنی تخلیق کے کرب میں مبتلا ہے۔ لہٰذا ہم مسلسل اسرائیلیوں سے ٹکر لیتے رہیں گے اور انہیں چیلنج کرتے رہیں گے۔‘‘
اسرائیلی کالم نگار ڈینی روبنسٹیئن نے کہا کہ اسرائیلی بھی مایوسی کا شکار ہیں۔’’کیوں کہ یہ حکومت کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اور مسئلہ حکومت کا نہیں ہے ۔ مسئلہ اسرائیل کے لوگ ہیں۔ وہ روز بروز زیادہ دائیں بازو کی طرف جھک گئے ہیں اوران کا رویہ زیادہ سخت ہو گیا ہے ۔‘‘
فلسطینی لیڈر محمود عباس اور ان کی فتح تحریک نے اپنے حریف حماس گروپ کے ساتھ اختلاف ختم کرنے کی کوشش کی۔ حماس وہ اسلام پسند گروپ ہے جو غزہ کو کنٹرول کرتا ہے۔ دونوں گروپوں کے لیڈروں نے کہا کہ وہ مصالحت کرنا اور فلسطینی علاقوں میں نئے انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔
اسرائیل نے کہا کہ اگر فلسطینیوں نے حماس سے مصالحت کی تو وہ امن کے تمام اقدامات ترک کردے گا کیوں کہ حماس کا گروپ اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتا ہے ۔
لیکن اسرائیلی حکومت نے ایک اسرائیلی سپاہی گیلاد شالت کے عوض جسے حماس نے پانچ برس قبل پکڑ لیا تھا، ایک ہزار فلسطینیوں کو رہا کر دیا ۔
غزہ میں مقیم تجزیہ کار محمود اجرامی نے کہا کہ اس تبادلے سے حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہو گیا اور فلسطینیوںمیں مسٹر عباس کی حمایت کم ہو گئی ’’اس سے ہمیں یہ امید ملتی ہے اور یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہم مزاحمت سے، اور صرف مزاحمت سے ہی اپنے حقوق بحال کر سکتے ہیں۔‘‘
کئی عرب ملکوں میں مقبول عوامی تحریکوں کے نتیجے میں اسلام پسندوں کی طاقت میں اضافے سے اسرائیل کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ تبدیلی کی جو لہر آئی ہوئی ہے اس سے اسرائیل کے خلاف جذبات میں اضافہ ہوگا اور اس کے استحکام کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔’’ہمارے ارد گرد کا تمام علاقہ غیر مستحکم ہے ۔ یہ ایسا سیاسی زلزلہ ہے اور سیکورٹی کے شعبے میں اتنی بڑی تبدیلی ہے جس کے نتیجے کے بارے میں ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایسے حالات ہیں، جن میں ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہے کہ ہمیں مضبوط اور بنیادی نوعیت کی سیکورٹی دستیاب ہو۔‘‘
کالم نگار روبنسٹیئن اس اندازِ فکر سے متفق نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ تیونس اور مصر میں جو پارٹیاں کامیاب ہوئی ہیں انہیں عوامی حمایت حاصل ہے ۔ ان کا خیال ہےکہ اسرائیل اور مغربی ملکوں کو ان سے رابطہ قائم کرنا چاہیئے۔’’مجھے ان سے خوف محسوس نہیں ہوتا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ جنونی نہیں ہیں۔ وہ طالبان نہیں ہیں، اور نہ وہ القاعدہ ہیں۔ وہ ترکی کی اسلامی تحریک کی طرح ہیں ۔ وہ عملیت پسند لوگ ہیں۔‘‘
PASSIA کے عبد الہادی کہتے ہیں کہ اسلامی تحریک میں تبدیلیاں آ رہی ہیں اور وہ اب جمہوری معاشرے میں شرکت کرنے لگی ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فلسطینی کاز کی حمایت ترک کردے گی۔ ان کے الفاظ ہیں’’ہم عرب کاز کی بنیاد رہے ہیں۔ 1914 کی پہلی عالمی جنگ سے، 1916، 1917 کی عرب بغاوتوں سے جمال عبد الناصر تک، سیاسی اسلام کے ساتھ، ہم بنیادی طور پر موجود رہے ہیں۔‘‘
تجزیہ کار اس نکتے پر متفق نہیں کہ عرب ملکوں میں عوامی تحریکوں سے مشرقِ وسطیٰ میں کیا تبدیلیاں آئیں گی ۔ لیکن بیشتر لوگ اس نکتے پر متفق ہیں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تعطل، علاقے میں امن اور استحکام کے لیے نیک فال نہیں ہے ۔