رسائی کے لنکس

افغانستان: داعش کی اختیار کردہ نئی حکمتِ عملی


فائل
فائل

گذشتہ سال، ہزارہ شیعہ اقلیتی گروپ کے مظاہرے پر کابل میں ہونے والا حملہ، نسبتاً آسان ہدف تھا۔ خودکش بمبار کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کی بھیڑ کو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے

اس ہفتے کابل میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش کے شدت پسندوں نے قبول کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گروپ کے ماضی کے حملوں کے برعکس، اِس بار اُس کی حکمتِ عملی مختلف تھی۔

گذشتہ سال، ہزارہ شیعہ اقلیتی گروپ کے مظاہرے پر کابل میں ہونے والا حملہ، نسبتاً آسان ہدف تھا۔ خودکش بمبار کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کی بھیڑ کو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔

بارنیٹ روبن ’سینٹر آن انٹرنیشنل کواپریشن‘ کے معاون سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’’کابل جیسے شہر کی ایک فوجی اسپتال پر حملہ، جہاں سکیورٹی سخت ہے، یہ ممکن نہیں کہ ’میٹل ڈٹیکٹر‘ سے جائے بغیر شوپنگ مال تک پہنچا جاسکے۔ اس کے لیے، کسی حملے کے لیے پیچیدہ قسم کی جاسوسی اور منصوبہ سازی درکار ہوگی۔ اس سے گروپ کی جانب سے جدید، خفیہ معلومات پر مبنی کارروائی کی صلاحیت ظاہر ہوتی ہے‘‘۔

روبن نے کہا کہ ’’اس کے لیے ضروری ہے کہ اسپتال کے اندر کی بہت ساری معلومات ہو، اندر جانے کی راہ کا پتا ہو، کابل میں بارودی مواد اندر داخل کیا جائے، کوئی ایسا محفوظ گھر میسر ہو جہاں ہر کام مکمل کیا جائے، ایسے کپڑے پہنے جائیں جن کی مدد سے پہچان ممکن نہ رہے، مثال کے طور پر ڈاکٹر دکھائی دینا، وغیرہ‘‘۔

نیٹو اور افغان حکومت اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اُن کی جانب سے کی گئی سکیورٹی کارروائی کے نتیجے میں افغانستان میں داعش کی تعداد ہزاروں سے کم ہو کر ہزار کے اندر رہ گئی ہے، جب کہ شدت پسند گروپ کی جانب سے 10 اضلاع پر کنٹرول کم ہو کر پانچ اضلاع تک محدود ہوگیا ہے۔

گروپ زیرِ زمین چلا گیا

تاہم، کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ داعش جیسے دہشت گرد گروپ کی طاقت کا اندازہ لگانے کا یہ انداز درست نہ ہوگا، جس نے حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی کو ڈھال لیا ہے۔

روبن کے مطابق، ’’میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں علم ہے کہ اُن کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ لڑائی میں ملوث ہونے والوں کی تعداد کم ہوگئی ہو، ہو سکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زیر زمین چلے گئے ہوں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اُن کی اصل تعداد کیا ہے‘‘۔

کابل میں موجود سیاسی تجزیہ کار، انتظار خادم نے بھی اِسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’میں یہ نہیں کہتا کہ داعش کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ داعش کے وسائل میں اضافہ ہوچکا ہے، جس سے اُن کی حربی قوت بڑھ گئی ہے‘‘۔

افغانستان میں امریکی فوج کے اعلیٰ کمانڈر، جنرل نکلسن نے امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کی سماعت کے دوران بریفنگ میں تسلیم کیا کہ صوبہٴ خراسان کی داعش، جیسا کہ دولت اسلامیہ کی یہ مقامی شاخ اپنا نام ظاہر کرتی ہے، اُس نے کابل اور ملک کے دیگر مقامات پر حملے کرکے اپنی صلاحیت منوائی ہے‘‘، حالانکہ لڑائی کے میدان میں اُسے خاصا نقصان پہنچا ہے۔

کابل کے حملے میں پانچ خودکش بم حملہ آوروں نے حصہ لیا۔ لیکن، پانچ بمباروں کی کارروائی کے لیے، شاید متعدد مددگار عملے کی ضرورت پڑی ہوگی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ صوبہٴ خوراسان کی داعش نے کابل کے اندر مدد کا ایک نیٹ ورک تیار کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG