پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس کے سربراہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو بتایا ہے کہ جولائی میں مبینہ طور پر اغوا ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کاروں کی شناخت ممکن نہیں ہے۔
پیر کو سپریم کورٹ میں آئی جی اسلام آباد کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نادرا نے ویڈیو میں نظر آنے والوں کی شناخت سے معذوری ظاہر کی ہے۔ نادرا کا کہنا ہے کہ ویڈیو فوٹیج غیر معیاری کیمرے سے بنی ہے۔ اغوا کاروں کی گاڑیوں کے نمبرز بھی معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نادرا اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے تفتیشی ٹیم کے اگست میں لکھے گئے خط پر ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔ این ایچ اے سے تین ٹول پلازوں کی فوٹیج مانگی گئی تھی، لیکن وہاں سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
اسی طرح نادرا کو پانچ افراد کی تصاویر دے کر ان کے پتے طلب کیے گئے تھے جو ابھی تک فراہم نہیں کیے گئے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 28 اکتوبر بروز بدھ کو مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کرے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کے جیو فینسنگ ایکسپرٹ نے بتایا ہے کہ واقعے کے وقت علاقے میں ایک لاکھ 21 ہزار موبائل نمبرز ٹریس کیے ہیں۔ جس جگہ یہ واقعہ ہوا وہاں سیف سٹی کا کوئی کیمرہ نصب نہیں تھا۔
پولیس کے مطابق واقعے کا کوئی چشم دید گواہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی رہائشی نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔
اس کیس میں جن افراد نے بیان ریکارڈ کرایا ہے، ان میں صحافی کی اہلیہ اور اسکول میں پھینکا گیا موبائل واپس کرنے والی ٹیچر شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اغوا کاروں کے روٹ پر سیف سٹی کیمروں میں 684 گاڑیوں اور 52 ڈبل کیبن گاڑیوں کی آمد و رفت ریکارڈ ہوئی ہے اور اغوا کاروں کی گاڑیوں کی نشان دہی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئی جی پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مطیع اللہ جان کے بیان کے بعد نادرا سے زرک خان نامی شخص کا ڈیٹا لیا گیا اور نادرا ریکارڈ کے مطابق ملک بھر میں 1236 افراد زرک خان کے نام سے رجسٹرڈ ہیں۔
مطیع اللہ جان کے مطابق اغوا کاروں نے انہیں رہا کرنے سے قبل ان سے سوال کیا کہ کیا ان کا نام زرک خان ہے جس سے یہ شک بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انہیں کسی زرک خان نامی شخص کے شبہے میں اغوا کیا گیا تھا۔
پولیس کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے۔
مطیع اللہ جان کیا کہتے ہیں؟
پولیس کی جانب سے پیش کی جانے والی اس رپورٹ کے حوالے سے مطیع اللہ جان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں اس رپورٹ کے سامنے آنے پر مایوسی کا شکار ہوا ہوں کہ اتنے دن گزرنے کے باوجود پولیس ایک بھی ملزم کی شناخت نہیں کر سکی۔"
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کا 'سیکٹر جی سکس' ایک مرکزی علاقہ ہے اور جہاں سے مجھے اغوا کیا گیا اس کے قریب لال مسجد اور کئی اہم مقامات ہیں جہاں پر پولیس کے سیف سٹی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر کسی گاڑی کی شناخت نہیں ہو سکی اور پولیس کو کسی شخص کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا تو یہ مایوس کن کارکردگی ہے۔
مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں کراچی میں جس طرح آئی جی سندھ اور پھر ایک صحافی کا مبینہ اغوا ہوا اس کے بعد عین ممکن ہے کہ پولیس بھی دباؤ میں ہو اور اسی وجہ سے وہ اس کیس میں اصل حقائق کو سامنے نہیں لا سکے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اس رپورٹ کی کاپی حاصل کر لی ہے اور اس بارے میں عدالت میں پیشی کے وقت اپنا ردِعمل عدالت میں دوں گا۔
مطیع اللہ جان کا 'اغوا' اور واپسی
رواں سال 21 جولائی کو اسلام آباد کے سیکٹر جی-6 میں ایک اسکول کے باہر سے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا تھا اور اسی روز 11 گھنٹے بعد انہیں نامعلوم افراد نے اسلام آباد کے قریب فتح جنگ کے علاقے میں چھوڑ دیا تھا۔
مطیع اللہ جان کے اغوا کا مقدمہ تھانہ آبپارہ میں ان کے بڑے بھائی شاہد اکبر کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ ان کے بھائی کو زبردستی مسلح افراد نے اغوا کیا۔
شاہد اکبر نے پولیس کو بتایا تھا کہ اغوا کار کالے رنگ کی وردی میں ملبوس تھے اور انہوں نے گاڑیوں پر پولیس کی لائٹیں بھی لگا رکھی تھیں۔
مطیع اللہ جان کے اغوا پر مختلف سیاسی و صحافتی تنظیموں کی طرف سے مذمت کی گئی تھی۔
مطیع اللہ جان نے بازیاب ہونے کے بعد اپنی روداد ایک ویڈیو بیان میں بتائی تھی جس کے مطابق اغوا کاروں نے انہیں کئی گھنٹوں تک ایک مقام پر رکھا اور رات گئے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر فتح جنگ کے قریب چھوڑ گئے جہاں سے انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا اور گھر واپس پہنچے۔
مطیع اللہ جان کے اغوا کے بعد اسلام آباد میں سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد گوندل کو بھی نامعلوم افراد نے 'اغوا' کر لیا تھا اور تین دن کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔