اسلام آباد میں پولیس نے لڑکے اور لڑکی پر تشدداور ہراساں کرنے والے اس ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جس کی تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے چند گھنٹوں بعد ہی اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ کی پولیس نے فوری کارروائی کی اور ویڈیو میں نظر آنے والے ملزم عثمان مرزا کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کرنے والے ملزم عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں فرحان اور عطا الرحمٰن کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔ مزید قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر مصطفیٰ تنویر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عثمان مرزا نامی شخص کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جب کہ مزید دو دیگر افراد کے بارے میں معلومات موجود ہیں جنہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے ایس ایس پی نے بتایا کہ واقعے کے متاثرین سے پولیس کا رابطہ نہیں ہو سکا ہے البتہ ابتدائی اطلاعات ملی ہیں کہ ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں لڑکا اور لڑکی اپنے ایک دوست کے اسلام آباد کے سیکٹر ای-الیون میں فلیٹ پر پہنچے تھے جہاں بعد ازاں اچانک یہ تمام افراد پہنچے اور ان دونوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کیا۔
انہوں نے واقعے کے حوالے سے مزید کہا کہ اس کیس میں خاتون کو ہراساں کرنے سمیت دیگر الزامات کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ جنسی زیادتی کے الزامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ زیادتی کے الزامات موجود ہیں۔ البتہ جب تک اس واقعے میں متاثرہ خاتون کا بیان ریکارڈ نہ ہو اس وقت تک اس الزام کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ اگر زیادتی ہوئی یا اس کی کوشش بھی کی گئی ہو۔ تو اس کی دفعات بھی ایف آئی آر میں شامل کی جائیں گی۔
مصطفیٰ تنویر کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث ملزم عثمان مرزا کے خلاف اسلام آباد کے مختلف تھانوں سے ریکارڈ جمع کیا جا رہا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق مختلف مالی امور میں اس کے خلاف مقدمات موجود ہیں۔ البتہ کسی خاتون کو ہراساں یا زیادتی کے الزامات کے تحت کوئی کیس درج نہیں ہے۔
رپورٹس کے مطابق ملزم عثمان مرزا دورانِ تفتیش تسلیم کر چکا ہے کہ وہ اس واقعے کے وقت نشے میں تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کیا۔ البتہ اس نے جنسی زیادتی کے الزامات سے انکار کیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آنے کے بعد صارفین نے شدید احتجاج کیا ہے اور جب کہ سوشل میڈیا پر اریسٹ عثمان مرزا (#ArrestUsmanMirza) کا ہیش ٹیگ بھی ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم عثمان مرزا کا اسلام آباد کے سیکٹر آئی-نائن اور سیکٹر ای-الیون میں کاروں کے شو روم ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار سے بھی منسلک ہے۔ سوشل میڈیا پر عثمان مرزا اسلحے کے ساتھ تصاویر اپ لوڈ کرتا رہا ہے۔ حکام کے مطابق اب پولیس وہ اسلحہ بھی تلاش کر رہی ہے اور اس کی تحقیق کی جا رہی ہے کہ اس کا لائسنس موجود ہے یا نہیں۔
سوشل میڈیا پر اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے صارف عمار علی جان نے کہا کہ عثمان مرزا جیسے عفریت اس کلچر کی پیداوار ہیں جس میں انہیں معلوم ہے کہ وہ استثنیٰ کے ساتھ بھیانک تشدد کا ارتکاب کر سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بد قسمتی سے خواتین کو ہمارے نظام کی بربریت کا سامنا کرنا پڑتا۔
محمد ابراہیم قاضی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بدمعاشی کلچر بہت پرانا ہے اور صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی عوام کے سامنے لایا جاتا ہے۔
وزیرِ مملکت ملیکہ بخاری نے ٹوئٹ کیا کہ اس کیس میں اسلام آباد پولیس نے فوری کارروائی کی ہے۔ آئی جی خود کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ملیکہ بخاری کا مزید کہنا تھا کہ مجھے بہت سی خواتین کے پیغامات موصول ہوئے جو اس صورتِ حال میں خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں اور ناراض ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے وحشیوں سے نمٹنے کے لیے ریاست موجود ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری نے بھی ملزم کی اسلحہ کے ساتھ ویڈیوز ٹوئٹ کیں۔
سینیٹر فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لوگ دارالحکومت کے دل میں موجود ہیں ۔
سوشل میڈیا پر شمع جونیجو نے کہا کہ عثمان مرزا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ البتہ اس طرح کے لوگ اپنے پیسے اور تعلقات کی وجہ سے ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان افراد کے خلاف مقدمے کو ٹیسٹ کیس بنا کر دہشت گردی کی دفعات کارروائی کی جائے تاکہ ایسے لوگ جیل کے اندر ہی رہیں۔
پاکستان میں حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف کیسز سامنے آئے جن پر عوامی دباؤ کے باعث فوری کارروائی کی گئی اور نہ صرف ملزمان کو گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے خلاف کیسز بھی چلے۔
راولپنڈی میں چند روز قبل موٹر سائیکل سوار کی لڑکی سے پرس چھیننے اور سڑک پر گرانے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک ہی روز میں ملزم کو گرفتار کیا گیا اور ایک ہفتہ کی کارروائی کے بعد ملزم کو ایک سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
پشاور میں بھائیوں کی طرف سے بہن اور والدہ پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔