پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے اتوار کے روز ایچ بی او پر نشر ہونے والے انٹرویو میں ان کے ریپ اور خواتین کے لباس سے متعلق بیان پر سوشل میڈیا پر سخت ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے یہ انٹرویو خبروں کی ویب سائٹ ایکزیوس کے صحافی جوناتھن سوان کو دیا تھا۔
وزیرِ اعظم سے صحافی جوناتھن سوان نے ان کے ماضی کے بیانات پر سوال کیا کہ آپ نے ماضی میں پاکستان میں بڑھتے جنسی تشدد کے واقعات کی سنجیدگی کا اقرار کیا تھا اور پاکستان کے قوانین کا بھی ذکر کیا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے اس بارے میں بیان دیا تھا کہ عورتوں کو پردے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ مردوں کو مشتعل ہونے سے روکا جائے۔ بقول آپ کے ہر مرد میں زیادہ قوت ارادی نہیں ہوتی اور یہ کہ جب بے حیائی کو بڑھایا جائے گا تو اس کے نتائج ہوں گے۔
جوناتھن نے وزیرِ اعظم سے سوال کیا کہ اس پر کہا گیا کہ آپ ریپ ہونے والی خواتین کو مورد الزام ٹہرا رہے ہیں۔ آپ کا اس پر کیا ردِ عمل ہے۔
وزیرِ اعظم نے اس الزام کو بے تکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صرف پردے کی بات کر رہے تھے، تاکہ معاشرے سے اشتعال پھیلانے والے عوامل کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں نہ ہی ڈسکو ہیں اور نہ ہی نائٹ کلب۔ جب معاشرے میں جنسی اشتعال کو بڑھا دیا جائے اور نوجوانوں کے پاس اس کو نکالنے کے جائز ذرائع نہ ہوں تو پھر اس کے لازمی برے نتائج ہوں گے۔
جب ان سے صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ کے خیال میں عورتیں جو بھی پہنتی ہیں، اس سے معاشرے میں یہ اشتعال بڑھتا ہے تو وزیراعظم نے کہا کہ جب عورتیں بہت کم کپڑے پہنیں گی تو اس کا مردوں پر اثر پڑے گا، سوائے اس کے کہ وہ روبوٹ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشرہ مغربی معاشرے سے مختلف ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مغربی معاشرے میں عورتوں کے کپڑوں سے مردوں کو فرق نہ پڑے، مگر یہ کہنا کہ جو آپ کے معاشرے میں درست ہے وہ ہمارے معاشرے میں بھی ہو، بقول ان کے یہ ثقافتی سامراجی رویہ ہے۔
وزیرِ اعظم کے اسلاموفوبیا کے خلاف سخت مؤقف کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ چین میں جہاں مبینہ طور پر 10 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو حراست میں رکھا گیا ہے اور جہاں مسلمانوں پر تشدد اور مسجدوں کو مسمار کرنے کے علاوہ دیگر مظالم کی رپورٹس سامنے آئی ہیں، مگر آپ نے اس پر اپنا ردِ عمل ظاہر کیوں نہیں کیا تو وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ہماری چینی قیادت کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق یہ الزامات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے جو بھی معاملات ہیں، ہم ان ہر بند کمروں میں بات کرتے ہیں۔ چین مشکل ترین گھڑیوں میں ہمارا بہترین دوست ثابت ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے ریپ سے متعلق بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے اور صارفین وزیراعظم پر دوبارہ ریپ ہونے والوں کو ہی مورد الزام ٹہرانے کا الزام دے رہے ہیں۔
صحافی اور قانون دان ریما عمر نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں جنسی تشدد کے واقعات کی وجوہات بتاتے ہوئے وزیراعظم نے متاثرین پر ہی الزام دھر دیا ہے جو انتہائی مایوس کن ہے۔
اداکار عثمان خالد بٹ نے کہا کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خواتین کے کپڑوں کا جنسی تشدد سے تعلق ہے، اور اس کی وجہ معاشرے کے مختلف ہونے کی بتائی جاتی ہے تو یہ آپ کے معاشرے کے خلاف سخت فیصلہ دیا جا رہا ہوتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ یہ درست ہے کہ مرد روبوٹ نہیں ہیں، اور یہ کہ یہاں چاہت، اشتعال اور کشش بھی ہے۔ لیکن ریپ کی یہ وجوہات نہیں ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ریپ کی وجہ طاقت، تسلط اور احساس کی مکمل نفی ہے۔
صحافی نتاشہ نے سوال کیا کہ کیا مردوں کے اشتعال کا بوجھ عورتیں اٹھائیں گی؟
سماجی کارکن عمار علی جان نے لکھا کہ ہم یہ مان نہیں سکتے کہ مردوں میں اتنی بربریت ہے کہ وہ ذرا سے جنسی طور پر مشتعل ہونے پر ریپ کر بیٹھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مرد دوسروں کی نجی حدود کو سمجھ سکتے ہیں اور اس کا احترام کرنے کے قابل ہیں۔
ایک اور صارف طوبیٰ سید نے سوال اٹھایا کہ کیا خواتین ان کپڑوں کی تصاویر شئیر کر سکتی ہیں جو انہوں نے تب پہنے تھے جب انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا تھا یا انہیں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس سوال پر درجنوں خواتین نے ردعمل دیا۔
اس سوال پر ایک صارف نفیسہ مشتاق نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ پہلی بار تب ایسا ہوا جب میں چار برس کی تھی اور میں نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ دوسری بار جب میں 24 برس کی تھی اور ہاسٹل میں اپنے بیڈ روم میں تھی اور میں نے شلوار قمیض اور دوپٹہ پہن رکھا تھا، اور تیسری بار 39 برس کی عمر میں تب ایسا واقعہ ہوا جب میں نے لمبی شرٹ اور پینٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے علاوہ سردی سے بچنے کے لیے شال اوڑھ رکھی تھی اور ایک ہوٹل کی لابی میں تھی۔
اس ردعمل کے علاوہ بھی خواتین نے ایسے کئی واقعات بیان کیے جہاں انہوں نے بتایا کہ بچپن سے لے کر بلوغت اور اس کے بعد بھی ان کے ساتھ ایسے واقعات جب ہوئے تو انہوں نے کیسا لباس پہن رکھا تھا۔
مصنف فاطمہ بھٹو نے سوال اٹھایا کہ مفتی عزیزالدین کی جانب سے طالب علموں کو ریپ کرنے اور ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے میں ڈسکو اور نائٹ کلب کے نہ ہونے یا کم کپڑے پہننے کا کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی گفتگو غیر مناسب، رجعت پذیر اور مجرموں کو بری کرنے کے مترادف ہے۔
وزیراعظم کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے ٹویٹر پر ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ وزیراعظم کے خلاف یہ الزامات ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لگائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے ریما عمر کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ریما نے وزیر اعظم کی ویڈیو کے اس حصے کے بارے میں نہیں لکھا جہاں وزیراعظم نے ہمارے معاشرے کے بارے میں بات کی ہے اور کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جنسی محرومی موجود ہے۔
وائس آف امریکہ نے ڈاکٹر ارسلان خالد سے وزیراعظم کے خلاف ہونے والی تنقید پر ردعمل لینے کے لیے رابطہ کیا مگر یہ رپورٹ فائل ہونے تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔