اسلام آباد —
پاکستان کی سیاست کے منظر نامے پر حالیہ مہینوں میں ہلچل تو جاری تھی لیکن گزشتہ ماہ وطن واپس آنے والے مولانا طاہرالقادری کے اسلام آباد چلو کے اعلان سے اس میں مزید تیزی آ گئی۔
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ نے حکومت سے 10 جنوری تک انتخابی نظام میں آئین کے مطابق اصلاحات نہ کرنے کی صورت میں 14 جنوری کو لاکھوں لوگوں کے ہمراہ اسلام آباد میں جمع ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس اعلان اور خصوصاً لانگ مارچ کی تاریخ نزدیک آنے کے بعد وفاقی دارالحکومت جہاں سکیورٹی پہلے ہی سخت ہوتی ہے اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں سمیت مختلف حساس علاقوں کو جانے والی شاہراہوں پر کنٹرینرز اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جب کہ پولیس کے اضافی دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
خاص طور پر ریڈ زون کہلانے والے علاقے جہاں پارلیمنٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے علاوہ اہم سرکاری عمارتیں اور غیر ملکی سفارت خانے واقع ہیں، کو غیر متعلقہ افراد کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کے اعلان پر اسلام آباد کی تاجر برادری کے بعض نمائندوں نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک تاجر اسد وحید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہم کاروبار کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، کسٹمر جب میڈیا پر یہ دیکھتا ہے ۔۔۔ تو وہ اپنے گھروں سے ہی نہیں نکلتے اور ہمارا کاروبار اس سے شدید متاثر ہوتا ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ نے اس صورت حال کے بارے میں ایک روز قبل اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا تھا کہ حکومت وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
’’کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت اپنی تیاری کرتی ہے، پاکستان کے لوگوں، اسلام آباد اور راستے میں آنے والے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کوششیں کریں گے۔‘‘
سلامتی کے خدشات کے تناظر میں وفاقی دارالحکومت کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں نے 14 جنوری کو تعطیل کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
لانگ مارچ کے اعلان کے بعد کی صورتحال سے اسلام آباد کے شہریوں کو بھی کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چند دن پہلے جہاں سی این جی بھروانے کے لیے گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں اب وہاں پٹرول کے حصول کے لیے طویل قطاریں نظر آئیں۔
اسلام آباد کے ایک مرکزی علاقے میلوڈی مارکیٹ میں واقع ایک پٹرول پمپ کے مینیجر محمد عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں اس افواہ کے بعد پمپس پر نظر آئیں کہ شاید لانگ مارچ کی وجہ سے پٹرول پمپس بند کردیے جائیں۔
’’ ہم پراڈکٹ (پٹرولیم مصنوعات) ایک مقررہ مقدار میں منگواتے ہیں اور جب سب ہی پٹرول بھروانے کے لیے آجائیں تو رش تو ہوگا ہی۔ پٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات بھی اس تاثر کی نفی کر چکے ہیں کہ راولپنڈی، اسلام آباد میں پٹرول کی کسی قسم کی قلت ہے۔
لانگ مارچ کے موقع پر شہر میں ’’لاکھوں لوگوں‘‘ کی آمد کے تناظر میں روز مرہ اشیائے ضروری کی قلت جیسی افواہوں کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ گھریلو استعمال اور اشیائے خورو نوش ذخیرہ کررہے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر اتوار سے راولپنڈی، اسلام آباد میں موبائل سروس بھی معطل کردی جائے گی۔ لیکن سرکاری طور پر اس بارے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے سربراہ نے حکومت سے 10 جنوری تک انتخابی نظام میں آئین کے مطابق اصلاحات نہ کرنے کی صورت میں 14 جنوری کو لاکھوں لوگوں کے ہمراہ اسلام آباد میں جمع ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس اعلان اور خصوصاً لانگ مارچ کی تاریخ نزدیک آنے کے بعد وفاقی دارالحکومت جہاں سکیورٹی پہلے ہی سخت ہوتی ہے اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں سمیت مختلف حساس علاقوں کو جانے والی شاہراہوں پر کنٹرینرز اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں جب کہ پولیس کے اضافی دستے بھی تعینات کیے گئے ہیں۔
خاص طور پر ریڈ زون کہلانے والے علاقے جہاں پارلیمنٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے علاوہ اہم سرکاری عمارتیں اور غیر ملکی سفارت خانے واقع ہیں، کو غیر متعلقہ افراد کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کے اعلان پر اسلام آباد کی تاجر برادری کے بعض نمائندوں نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک تاجر اسد وحید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ہم کاروبار کے لیے یہاں بیٹھے ہیں، کسٹمر جب میڈیا پر یہ دیکھتا ہے ۔۔۔ تو وہ اپنے گھروں سے ہی نہیں نکلتے اور ہمارا کاروبار اس سے شدید متاثر ہوتا ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ نے اس صورت حال کے بارے میں ایک روز قبل اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے کہا تھا کہ حکومت وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
’’کسی بھی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت اپنی تیاری کرتی ہے، پاکستان کے لوگوں، اسلام آباد اور راستے میں آنے والے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کوششیں کریں گے۔‘‘
سلامتی کے خدشات کے تناظر میں وفاقی دارالحکومت کے تمام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں نے 14 جنوری کو تعطیل کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
لانگ مارچ کے اعلان کے بعد کی صورتحال سے اسلام آباد کے شہریوں کو بھی کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ چند دن پہلے جہاں سی این جی بھروانے کے لیے گاڑیوں کی لمبی قطاریں ہوا کرتی تھیں اب وہاں پٹرول کے حصول کے لیے طویل قطاریں نظر آئیں۔
اسلام آباد کے ایک مرکزی علاقے میلوڈی مارکیٹ میں واقع ایک پٹرول پمپ کے مینیجر محمد عمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گاڑیوں کی لمبی قطاریں اس افواہ کے بعد پمپس پر نظر آئیں کہ شاید لانگ مارچ کی وجہ سے پٹرول پمپس بند کردیے جائیں۔
’’ ہم پراڈکٹ (پٹرولیم مصنوعات) ایک مقررہ مقدار میں منگواتے ہیں اور جب سب ہی پٹرول بھروانے کے لیے آجائیں تو رش تو ہوگا ہی۔ پٹرول کی کوئی قلت نہیں ہے۔‘‘
وفاقی وزیر اطلاعات بھی اس تاثر کی نفی کر چکے ہیں کہ راولپنڈی، اسلام آباد میں پٹرول کی کسی قسم کی قلت ہے۔
لانگ مارچ کے موقع پر شہر میں ’’لاکھوں لوگوں‘‘ کی آمد کے تناظر میں روز مرہ اشیائے ضروری کی قلت جیسی افواہوں کے بعد یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ گھریلو استعمال اور اشیائے خورو نوش ذخیرہ کررہے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں کہ دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر اتوار سے راولپنڈی، اسلام آباد میں موبائل سروس بھی معطل کردی جائے گی۔ لیکن سرکاری طور پر اس بارے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔