اسلام آباد کی ایک عدالت نے لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں لیکن تاحال ان کی گرفتاری سے متعلق کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
جمعہ کو پولیس نے عدالت کو بتایا کہ سول سوسائٹی کے نمائندوں نے انھیں قتل کی دھمکیاں دیے جانے پر مولانا عبدالعزیز کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا لہذا لال مسجد کے سابق خطیب کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے۔
سینیئر سول جج ثاقب جواد نے معاملہ سننے کے بعد ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد مولانا عبدالعزیز کا ایک متنازع بیان سامنے آیا تھا کہ وہ اس واقعے کی مذمت نہیں کریں گے۔
اس بیان پر جہاں ذرائع ابلاغ میں خاصی لے دے ہوئی وہیں سول سوسائٹی کے نمائندوں نے لال مسجد کے باہر سابق خطیب کے خلاف مظاہرہ کیا۔
اس دوران مولانا عبدالعزیز اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مظاہرین کو مبینہ طور پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد سول سوسائٹی نے ان کے خلاف تھانہ آبپارہ میں مقدمہ درج کروایا تھا۔
انسانی حقوق کی ایک معروف کارکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عدالتی حکم کو قابل تعریف قرار دیا۔
ادھر شائع شدہ اطلاعات کے مطابق لال مسجد سے منسلک شہدا فاؤنڈیشن کی طرف سے یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کی مزاحمت کی جائے گی۔
اسلام آباد کی لال مسجد اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنی جب 2007ء میں اس مسجد کے ملحقہ مدرسے کے طلبا و طالبات نے نہ صرف پولیس کے اہلکاروں کو زدو کوب کیا بلکہ چند غیر ملکی (چینی شہری) باشندوں کو مبینہ طور پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے یرغمال بنایا۔
جولائی 2007ء میں اس مدرسے کے خلاف بھرپور آپریشن کیا گیا جس میں کم ازکم ایک سو افراد ہلاک ہوئے جب کہ فوج کے ایک کرنل سمیت دس اہلکار بھی مارے گئے۔
حکام کے مطابق اس مدرسے میں بڑی مقدار میں اسلحہ موجود تھا جب کہ یہاں چند غیر ملکی شدت پسند بھی موجود تھے۔
اس آپریشن میں مولانا عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی عبدالرشید غازی بھی ہلاک ہوگئے تھے جب کہ مولانا کو فرار ہوتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں نے گرفتار کر لیا تھا۔