اسلام آباد —
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی دو معروف مارکیٹوں میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں ایک شخص ہلاک جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔
یہ دونوں دھماکے ہفتہ کو طلوع آفتاب سے قبل دو سے تین بجے کے درمیان ہوئے۔
بم دھماکوں کے بعد وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی سخت کر دی گئی اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں کی نگرانی کے علاوہ پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا گیا۔
پولیس کے مطابق پہلا دھماکا اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس میں سپر مارکیٹ میں ہوا، جہاں گاڑیوں کی پارکنگ میں ایک تھیلے میں رکھے گئے بارودی مواد میں اُس وقت دھماکا ہوا جب ایک سکیورٹی گارڈ نے اُسے جانچنے کے لیے بظاہر ٹھوکر ماری۔
دھماکے سے سکیورٹی گارڈ کی ٹانگیں جسم سے الگ ہو گئیں اور وہ زخموں کی تاب نا لا کر ہفتہ کی صبح اسپتال میں دم توڑ گیا۔ دھماکے میں ایک دوسرا نجی سکیورٹی گارڈ زخمی بھی ہوا۔
اس سے قبل اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ سپر مارکیٹ میں بم دھماکا مبینہ طور پر خودکش حملہ آور کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
سپر مارکیٹ میں دن بھر خاصا رش رہتا ہے لیکن جب یہ دھماکا ہوا، خوش قسمتی سے وہاں زیادہ لوگ موجود نہیں تھے۔
دوسرا دھماکا جی نائن مرکز، کراچی کمپنی، میں ہوا۔ اس بازار کا شمار اسلام آباد کی مصروف ترین مارکیٹوں میں ہوتا ہے۔
کراچی کمپنی میں دھماکا خیز مواد ایک گاڑی کے نیچے نصب کیا گیا تھا اس واقعے میں کسی طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق دونوں بم دھماکوں میں دو سے تین کلو گرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
فوری طور پر کسی نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
وفاقی دارالحکومت میں یہ دھماکے ایسے وقت ہوئے جب رواں ہفتے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں لگ بھگ 70 مشتبہ جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں کارروائی کے بعد حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر شہروں کی سکیورٹی سخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے بعد کسی بھی طرح کے ممکنہ ردعمل کو روکا جا سکے۔
اس سے قبل اپریل میں اسلام آباد کی سبزی منڈی میں صبح کے مصروف وقت میں پھلوں کی ایک پیٹی میں چھپائے گئے بم دھماکے میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور لگ بھگ 100 زخمی ہو گئے تھے۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز رواں سال کے اوائل میں کیا تھا لیکن اس میں تاحال کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں 10 روز کی توسیع کر دی گئی تھی۔ لیکن پھر طالبان کی شوریٰ نے فائر بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
دریں اثنا جمعہ کو زبردستی پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہونے والے سکھ مظاہرین کے واقعہ کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایک سپریٹنڈنٹ پولیس، تین ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس اور تین انسپکٹروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔
درجنوں سکھ مظاہرین کے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے پر ملک کی پارلیمان کے لیے سکیورٹی انتظامات پر کئی سوالیہ نشانہ اٹھائے گئے۔
سکھ برداری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی مقدس کتاب اور مقامات کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ تاہم حکمران جماعت کے سینیٹر ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ سکھ مظاہرین نے اپنے اس رویے پر معذرت بھی کی جسے قبول کر لیا گیا۔
یہ دونوں دھماکے ہفتہ کو طلوع آفتاب سے قبل دو سے تین بجے کے درمیان ہوئے۔
بم دھماکوں کے بعد وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی سخت کر دی گئی اور شہر کے داخلی و خارجی راستوں کی نگرانی کے علاوہ پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا گیا۔
پولیس کے مطابق پہلا دھماکا اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس میں سپر مارکیٹ میں ہوا، جہاں گاڑیوں کی پارکنگ میں ایک تھیلے میں رکھے گئے بارودی مواد میں اُس وقت دھماکا ہوا جب ایک سکیورٹی گارڈ نے اُسے جانچنے کے لیے بظاہر ٹھوکر ماری۔
دھماکے سے سکیورٹی گارڈ کی ٹانگیں جسم سے الگ ہو گئیں اور وہ زخموں کی تاب نا لا کر ہفتہ کی صبح اسپتال میں دم توڑ گیا۔ دھماکے میں ایک دوسرا نجی سکیورٹی گارڈ زخمی بھی ہوا۔
اس سے قبل اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ سپر مارکیٹ میں بم دھماکا مبینہ طور پر خودکش حملہ آور کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
سپر مارکیٹ میں دن بھر خاصا رش رہتا ہے لیکن جب یہ دھماکا ہوا، خوش قسمتی سے وہاں زیادہ لوگ موجود نہیں تھے۔
دوسرا دھماکا جی نائن مرکز، کراچی کمپنی، میں ہوا۔ اس بازار کا شمار اسلام آباد کی مصروف ترین مارکیٹوں میں ہوتا ہے۔
کراچی کمپنی میں دھماکا خیز مواد ایک گاڑی کے نیچے نصب کیا گیا تھا اس واقعے میں کسی طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق دونوں بم دھماکوں میں دو سے تین کلو گرام تک بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
فوری طور پر کسی نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
وفاقی دارالحکومت میں یہ دھماکے ایسے وقت ہوئے جب رواں ہفتے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں لگ بھگ 70 مشتبہ جنگجو مارے جا چکے ہیں۔
شمالی وزیرستان میں کارروائی کے بعد حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر شہروں کی سکیورٹی سخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے بعد کسی بھی طرح کے ممکنہ ردعمل کو روکا جا سکے۔
اس سے قبل اپریل میں اسلام آباد کی سبزی منڈی میں صبح کے مصروف وقت میں پھلوں کی ایک پیٹی میں چھپائے گئے بم دھماکے میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور لگ بھگ 100 زخمی ہو گئے تھے۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز رواں سال کے اوائل میں کیا تھا لیکن اس میں تاحال کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس میں بعد ازاں 10 روز کی توسیع کر دی گئی تھی۔ لیکن پھر طالبان کی شوریٰ نے فائر بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
دریں اثنا جمعہ کو زبردستی پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں داخل ہونے والے سکھ مظاہرین کے واقعہ کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ایک اعلٰی سطحی اجلاس میں اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایک سپریٹنڈنٹ پولیس، تین ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پولیس اور تین انسپکٹروں کو فرائض میں غفلت برتنے پر فوری طور پر معطل کر دیا ہے۔
درجنوں سکھ مظاہرین کے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے پر ملک کی پارلیمان کے لیے سکیورٹی انتظامات پر کئی سوالیہ نشانہ اٹھائے گئے۔
سکھ برداری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی مقدس کتاب اور مقامات کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ تاہم حکمران جماعت کے سینیٹر ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ سکھ مظاہرین نے اپنے اس رویے پر معذرت بھی کی جسے قبول کر لیا گیا۔