امریکی محکمہٴخارجہ نےصوبہٴانبار میں داعش کے ہاتھوں سنی قبائل کے اجتماعی قتلِ عام کی رپورٹوں پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ عراقی عوام کے خلاف مظالم جاری رکھے ہوئے ہے، ’جن کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں‘۔
جمعے کے روز، خاتون ترجمان جین ساکی نے کہا کہ عراقیوں کے دلوں میں دہشت بٹھانا اور ملک کے عوام میں فرقہ وارانہ تقسیم کو ہوا دینا داعش کا پسندیدہ حربہ ہے۔
ترجمان نے کہا کہ امریکہ اِن حربوں کی ’ممکنہ سخت ترین الفاظ میں‘ مذمت کرتا ہے، اور تشدد کے اِن تباہ کُن اور بے مقصد اقدامات کے حوالے سے ’ہم عراقی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں‘۔
بقول اُن کے، ’یہ بلا امتیاز جرائم ایک بار پھر یہ ثابت کرتے ہیں کہ عقیدے یا خطے کا لحاظ کیے بغیر، داعش تمام عراقیوں کو نشانہ بنا رہا ہے‘۔
جین ساکی نے کہا کہ ’النمر قبیلے‘ سے تعلق رکھنے والے سنی قبائل اور دیگر عرب قبیلوں کے افراد کے سر قلم کرنے کا ظالمانہ اقدام، موصل میں شیعہ قیدیوں کی اجتماعی ہلاکتیں، رمادی کی اجتماعی قبر اور عراق کے اقلیتی گروہوں پر ظالم و تشدد دراصل داعش کی شدت پسندی پر مبنی داستان کا ایک مونہ بولتا ثبوت ہے۔
تشدد کے یہ ہولناک جرائم سرزد کرنے والوں کی شناخت کی جانی چاہیئے، اور اُن کا پورا احتساب کیا جانا ضروری ہے۔
محکمہٴخارجہ کی ترجمان نے کہا کہ داعش عراق کےعوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔ بقول اُن کے،’وہ قاتل اور دہشت گرد ہیں، جو حکمرانی نہیں کرتے، بلکہ زیر قبضہ علاقوں کے لوگوں کا قتل کرنا اُن کا مشغلہ ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوجانی چاہیئے کہ دولت اسلامیہ نہ صرف عراق کے استحکام کے لیے، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کا باعث ہے‘۔
جین ساکی نے کہا کہ ’بین الاقوامی برادری، جس میں معروف علمائے دین شامل ہیں، داعش کے انسانیت سوز اور حقارت آمیز نظرئے کی مذمت کرتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ کی طرف سے شام اور عراقی عوام کے خلاف جاری تشدد اور خوف پر مبنی مہم جوئی کا قلع قمع کرنے کے لیے، ہم حکومت ِ عراق اور علاقائی ساجھے داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے؛ اور داعش کو کمزور کرنے اور اُسے شکست دینے کے لیے بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ مل کر جدوجہد کرتے رہیں گے۔
ترجمان نے کہا کہ ’عراق کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے کے لیے ہم اپنا فرض نبھائیں گے؛ اور ہم تمام عراقیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ متحد ہو کو شدت پسندی کا مقابلہ کریں، اور داعش نے جو نفرت کی راہ اپنائی ہے، اُسے مسترد کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی‘۔