پاکستان کے صوبۂ سندھ میں ایک ماہ کے دوران اقلیتی ہندو برادری کے دو مندروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مندروں میں نامعلوم افراد نے توڑ پھوڑ کی ہے۔
ان میں سے ایک واقعہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ضلع بدین کے علاقے کڑیو گھنور میں پیش آیا تھا جہاں دو سال قبل تعمیر ہونے والے مندر پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا اور وہاں رکھی گئی مورتیوں کو نقصان پہنچایا۔
دوسرا واقعہ اتوار کی رات کو سندھ کے صوبائی دارالحکومت کراچی میں پیش آیا۔ کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں نامعلوم افراد پر مشتمل ہجوم نے مندر کے اطراف رہائش پذیر ہندو آبادی اور مندر پر حملہ کیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچی اور حالات کو کنٹرول کر لیا گیا۔ حکام کے مطابق یہ معاملہ مبینہ طور پر بعض قابلِ اعتراض الفاظ لکھنے پر شروع ہوا تھا۔ پولیس نے قابلِ اعتراض الفاظ پر مقدمہ درج کر کے ایک شخص کو گرفتار بھی کیا تھا۔
حکام کے مطابق اسی واقعے کی آڑ میں بعض شرپسند عناصر نے مندر کو حملے کا نشانہ بنایا، جس کا الگ مقدمہ توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
اسی طرح منگل کو سندھ کے علاقے شہداد پور میں مبینہ گستاخانہ جملوں پر ہندوؤں کی املاک اور مندر پر حملے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ پولیس نے تین افراد کو گرفتار کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ایک اور واقعہ کراچی میں گزشتہ ماہ نوعمر مسیحی لڑکی آرزو راجا کی کم عمری میں شادی اور مبینہ جبری تبدیلیٔ مذہب کا بھی سامنے آیا تھا۔ حال ہی میں کشمور میں ہندو لڑکی سونیا کماری کے مبینہ اغوا کے بعد تبدیلیٔ مذہب کے الزامات اور ان جیسے دیگر واقعات نے اقلیتوں بالخصوص ہندو برادری کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔
ان میں سے اکثر جبری تبدیلیٔ مذہب کے معاملات کا الزام گھوٹکی میں واقع بھرچونڈی شریف کی درگاہ سے منسلک بعض علما پر لگایا جاتا ہے۔ لیکن وہ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے آئے ہیں۔ البتہ انسانی حقوق کے ادارے ان الزامات کو حقیقت پر مبنی قرار دیتے ہیں۔
'درس گاہوں سے انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کے پیغامات کی ترویج ہوئی'
سندھ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ یہاں رہائش پذیر ہندوؤں کی تعداد ملک بھر کے دیگر حصوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
اس صوبے میں گذشتہ چند برسوں سے مذہبی عدم برداشت اور اقلیتوں پر حملوں کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اس رحجان کو خطرناک قرار دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کمشن آف پاکستان کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ یہاں کئی دہائیوں سے شدّت پسند تنظیموں اور ان کے نظریات کو پنپنے کی اجازت دی گئی۔
"سندھ میں بعض درس گاہوں کے ذریعے انتہا پسندی، شدّت پسندی اور مذہبی منافرت کے پیغامات کی ترویج ہوئی۔ اس دوران حکام نے نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر آنکھیں بند کیے رکھیں بلکہ بالواسطہ طور پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔"
ان کے مطابق ایسے عناصر کو سیاسی پناہ ملنے اور پھر معاشرے میں پھیلنے والے عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے عمومی رویوں کی وجہ سے اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عظمیٰ نورانی نے مزید کہا کہ پاکستان بننے سے بھی پہلے سندھ میں ہندوؤں کی بڑی تعداد مقیم رہی ہے اور سال ہا سال سے صوبہ سندھ میں ہندو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں۔
"انہوں نے بڑے کاروبار کھول رکھے ہیں جب کہ وہ یہاں کی زبان اور ثقافت میں بھی رچے بسے ہوئے ہیں۔"
عظمیٰ نورانی کے مطابق ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں آہستہ آہستہ نفرت اور بدامنی پھیلائی جا رہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ مذہبی عدم برداشت بڑھے گی۔ ان کے بقول اس مذموم کھیل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا ہو گا۔
'صوبے کی حکمران جماعت سنجیدہ نہیں'
قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق اور تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی لال چند ملہی ایسے واقعات کی ذمہ داری صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں پر عائد کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ امن و امان کی ذمہ داری اب صوبائی معاملہ ہے۔ لیکن ان کے بقول پیپلز پارٹی ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے سنجیدہ اور تیار نظر نہیں آتی۔
"صوبۂ سندھ میں عام طور پر توہینِ مذہب کے کیسز نہیں ہوتے تھے لیکن اب توہینِ مذہب کے ساتھ جبری تبدیلیٔ مذہب کی شکایات میں بھی تیزی آئی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ظلم ہندوؤں سے ہو، مسلمانوں سے یا کسی اور مذہبی برادری سے، ان سے قانون کے مطابق انصاف کا سلوک کیا جانا چائیے۔
لال چند ملہی مذہبی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ قومی سیاسی جماعتیں اس بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں۔
"انہیں کسی مذہبی گروہ کی مخالفت کا خوف ہوتا ہے۔ انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ان کے ووٹرز ناراض نہ ہو جائیں۔ نتیجتاً قومی سیاسی جماعتیں ایسے اہم معاملات پر خاموشی اختیار کیے رکھتی ہیں اور ایسے واقعات کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔"
زبردستی تبدیلیٔ مذہب کے واقعات حقیقت یا مفروضے؟
سندھ کے صوبائی وزیرِ اطلاعات ناصر حسین شاہ، لال چند ملہی کے ان خیالات سے زیادہ اتفاق نہیں کرتے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہر قسم کے اقدامات کر رہی ہے۔
ناصر شاہ کے مطابق جب بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان کے تدارک کے لیے فوری طور پر مؤثر انتظامی، سیاسی اور قانونی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ اگر ایسے واقعات کو بروقت کنٹرول نہ کیا جائے تو اس کے گہرے اثرات ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امن و امان برقرار رکھنا اور ایسے واقعات میں انصاف فراہم کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ صوبۂ سندھ میں اقلیتوں کو سب سے زیادہ تحفظ حاصل ہے۔ اس بات کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہو۔
صوبائی وزیر نے اس خیال کو یکسر مسترد کیا کہ صوبے میں زبردستی تبدیلیٔ مذہب کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان کے خیال میں سندھ میں جبری تبدیلیٔ مذہب کے بعد شادی کے واقعات میں کوئی حقیقت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ محض الزامات ہوتے ہیں اور پھر سندھ حکومت نے کم عمری میں شادی کو جرم بھی قرار دے رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی اس سے متعلق دیگر مسائل پر بھی قانون سازی کے لیے کام کر رہی ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکن اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے تمام تر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ ساتھ ہی معاشرے میں رواداری اور برداشت کے رویوں کو فروغ دینا بھی ضروری ہے تاکہ پرامن معاشرتی اقدار کو زندہ رکھا جا سکے۔