اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے 100 سے زائد ممالک میں کم از کم 25,000 غیر ملکی جنگجو داعش اور ایسے متعلقہ گروپوں سے منسلک ہیں۔ یو ایس کاؤنٹر ٹیررزم سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق داعش نے تاجکستان اور کرغزستاں سے سینکڑوں اور قزاقستان سے 1,000 سے زائد افراد کو بھرتی کیا ہے۔
گانگریس میں نیو جرسی کے نمائندے کرائسٹ سمتھ نے کہا کہ ’’گزشتہ ہفتے ہی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تاجکستان کے کاؤنٹر ٹیررزم پروگرام کے سربراہ، جسے امریکی حکومت نے اعلیٰ تربیت دی تھی، انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑ کر داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔‘‘
ماہرین نے کہا کہ وسطی ایشیا کی حکومتوں کو ان کے اپنے پیدا کیے ہوئے چیلنجوں کا سامنا ہے جن میں بد عنوانی، قانون کی حکمرانی کا فقدان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ بے روزگاری اور کمزور اقتصادی امکانات ان کے عوام میں عدم اطمینان پیدا کرتے ہیں۔ انہی عوامل کا فائدہ اٹھا کر شدت پسند گروپ نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کرتے ہیں۔
امریکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اور سرحد پار سے آنے والے جنگجوؤں کے ذریعے دہشت گردی کے پیغامات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے علاقائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ڈینیئل روزن بلوم نے کہا کہ ’’ہمارے پاس کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار نہیں، مگر تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ شام اور عراق میں متحرک وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی بڑی تعداد کو ان کے ملکوں سے باہر بھرتی کیا جاتا ہے، اکثر جب وہ روس میں ہوتے ہیں، جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ روزگار کے لیے مقیم ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں، مگر اقتصادی امکانات میں بہتری ان ملکوں میں ایک اہم طویل مدتی کوشش ثابت ہو سکتی ہے، جہاں تارکین وطن کی آبادیوں کی نسبت شدت پسندی کی طرف لوگوں کی رغبت کا امکان کم ہے۔
امریکہ اس کوشش میں مدد کر سکتا ہے مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا اصل حل مقامی سطح پر ہی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے فرینک سلوفو نے کہا کہ ’’وہ لوگ اس عمل کے قریب ترین ہیں۔ یہ لوگ اپنی آبادیوں کو جانتے ہیں اور وہی لوگ ایسے کسی واقعے کا پتہ لگا سکتے ہیں یا اسے روک سکتے ہیں، اور ایسے کسی واقعے پر رد عمل کا اظہار کر سکتے ہیں۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ سنٹرل ایشیا اور دیگر جگہوں پر حکومتوں کو اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتوں کو پسماندگی سے بچایا جا سکے۔