رسائی کے لنکس

داعش کی قید میں کیا گذری، افغان عورتوں کی کہانی


جلال آباد (افغانستان) کے ایک پناہ گزین کیمپ کے ایک حیمے میںں بے گھر عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ۔ 18 جنوری 2017
جلال آباد (افغانستان) کے ایک پناہ گزین کیمپ کے ایک حیمے میںں بے گھر عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ۔ 18 جنوری 2017

داعش کے جنگجوؤں نے ضلع کوٹ کے ایک گاؤں پر حملہ کرکے مردوں کو ہلاک کر دیا اور ان کی خواتین اور بچوں کو پکڑ لیا۔ اس گاؤں کے لوگوں نے حکومتی فورسز کی مدد کی تھی۔

افغان عورتوں کے ایک گروپ نے ، جنہیں افغانستان کے مشرقی حصے میں داعش نے کئی مہینوں تک قید میں رکھا تھا، آخرکار اپنی خاموشی توڑ دی ہے اور بتایا کہ ہے انہیں قید کے دوران کس طرح اذیتیں دی جاتی تھی۔

پچھلے ہفتے ایک افغان خاتون نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا کہ انہیں تاریک جگہوں پر رکھا جاتا تھا ، انہیں عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ان کے بچوں پر یہ پابندی تھی کہ وہ روسکتے تھے اور نہ ہی شور کر سکتے تھے۔

ان عورتوں کو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے 2016 کے آغاز میں صوبے ننگر ہار سے پکڑا تھا اور رہا کرنے سے پہلے چار مہینوں تک قید میں رکھا تھا۔ ان کی رہائی علاقے کے قبائلی معتبرین کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے قیدیوں کے تبادلے کے بدلے میں ہوئی تھی۔

داعش کے ڈر سے انہوں نے کم و بیش ایک سال تک اس دہشت گرد گروپ کے مظالم کے بارے میں اپنی زبانیں بند رکھیں اور پھر پچھلے ہفتے صوبائی دارالحکومت جلال آباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان پر کس کس طرح سے ظلم ڈھائے گئے تھے۔

اس تقریب میں صوبائی عہدے دار اور عام شہری بھی موجود تھے۔

سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہوں نے وائس آف امریکہ سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔

قیدیوں کا تبادلہ افغان صدر اشرف غنی کی اجازت سے ہوا۔

خبروں کے مطابق سیکیورٹی حکام نے 2016 میں اس علاقے میں داعش کے خلاف کارروائیوں کے دوران اسلامک اسٹیٹ سے وفادار مقامی جنگجوؤں کے خاندانواں کو پکڑ لیا تھا۔اور انہیں پوچھ گچھ کے لیے سرکاری تحویل میں لے لیا گیا۔

اس کے ردعمل میں داعش کے جنگجوؤں نے ضلع کوٹ کے ایک گاؤں پر حملہ کرکے مردوں کو ہلاک کر دیا اور ان کی خواتین اور بچوں کو پکڑ لیا۔ اس گاؤں کے لوگوں نے حکومتی فورسز کی مدد کی تھی۔

عورتوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ داعش نے انہیں مشرقی افغانستان میں سخت پہرے کے تاریک کمروں میں رکھا۔ گروپ کا الزام تھا کہ وہ افغان حکومت کی مدد کرکے اور حکومتی کنٹرول کے علاقوں میں رہنے کی وجہ سے ملحد ہو گئے ہیں۔

ایک عورت نے بتایا کہ وہ ہمیں مارتے پیٹتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ وہ ہمیں قتل کر دیں گے کیونکہ اب ہم مسلمان نہیں رہے کافر ہوچکے ہیں۔

اس نے بتایا کہ عسکریت پسند فضائی حملوں سے بہت ڈرتے تھے اوران سے بچنے کے لیے اپنی جگہیں بدلتے رہتے تھے۔ وہ ہمیں مسلسل مختلف جگہوں پر منتقل کرتے رہے اور ہمارا آخری ٹھکانہ ضلع اچن کا مومند ڈیرہ تھا۔

ایک اور خاتون نے بتایا کہ ان کےکارندوں نے ہمیں ویڈیوز دکھائی کہ کس طرح ہمارے شوہروں کو قتل کی گیا تھا۔

ایک اور خاتون نے، جسے اس کی دو نوعمر بیٹیوں سمیت پکڑا گیا تھا، بتایا کہ داعش کے ارکان کی اکثریت غیر ملکیوں پر مشتمل تھی اور وہ مختلف زبانیں بولتے تھے۔

اس نے جنگجوؤں کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ ان کے بال لمبے تھے، وہ اپنے چہرے چھپائے رکھتے تھے، ان کی شکلیں اور زبانیں مختلف تھیں۔

ننگرہار میں افغان ہیومین رایٹس کمشن کی سربراہ سبرینا حمیدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان عورتوں کے شوہروں کو داعش نے ہلاک کر دیا تھااور انہیں قید میں ڈال دیا تھا۔اب اپنے بچے پالنے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔اس معاشرے میں روزی کمانا عموماً مردوں کا کام ہے اور بیوہ ہوجانے والی عورتوں کو عام طورپردوسری شادی کرنے یا اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔

انہوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ ان عورتوں اور ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرے۔

اسلامک اسٹیٹ یاداعش نے حالیہ برسوں میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں اپنی جڑیں بنا لی ہیں اور وہ کئی اضلاع بالخصوص پاکستان کی سرحد سے منسلک ضلع کوٹ میں بہت فعال ہے۔

گذشتہ برسوں کے دوران یہ گروپ کئی سرکاری تنصیبات اور صوبے کے مختلف علاقوں میں مہلک حملے کر چکا ہے۔کئی علاقوں میں انہوں نےسرکاری اسکول بند کروا کر اپنے مدرسے قائم کر لیے ہیں۔

امریکی فورسز کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے حالیہ عرصے میں داعش کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اس گروپ کی استعداد میں کمی آئی ہے۔ ان کے ارکان کی تعداد کا اندازہ چند سو سے لے کر تین ہزار تک لگایا جاتا ہے۔

XS
SM
MD
LG