عراق میں دو سال قبل ایک وسیع رقبے پر قبضہ کر کے وہاں نام نہاد خلافت کا اعلان کرنے والے شدت پسند گروپ داعش کے خلاف فورسز کی بھرپور کارروائیاں جاری ہیں اور بہت سے علاقوں کو واگزار کروانے کے علاوہ ایک آخری مضبوط گڑھ موصل کا قبضہ بحال کرنے کے لیے بھی آپریشن شروع ہو چکا ہے۔
موصل کے قریب واقع ایک علاقے سے تعلق رکھنے والے ابو یوسف ایک ہفتہ قبل ہی یہاں سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ نقل مکانی کر کے کرد علاقے میں قائم خضر کیمپ میں پہنچے۔
انھوں نے داعش کے زیر تسلط گزارے جانے والے وقت میں اپنے حالات و واقعات سے وائس آف امریکہ کو آگاہ کیا۔
ابو یوسف بتاتے ہیں کہ موصل پر داعش کے قبضے کے وقت وہ ایک پولیس افسر تھے۔ جب ان کا قصبہ بعشیقہ بھی داعش کے زیر تسلط آ گیا تو شدت پسندوں نے پولیس اور دیگر سرکاری کارکنوں کو داعش کے اعلیٰ حکام سے ملنے کے لیے موصل بھیجا تاکہ وہاں اپنے "ایمان کی تجدید" کر سکیں۔
"مجھے حیرت ہوئی، میں اپنی 30 سالہ زندگی میں مسلمان ہی رہا تھا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ تم عراقی حکومت کے لیے کام کرتے تھے جو کہ اسلام کے خلاف ہے، انھوں نے مجھے برا بھلا کہا اور مجھ سے اسلحہ لے لیا۔"
ابویوسف کے بقول انھیں وہاں دوبارہ اسلام کے اولین رکن توحید کے مطابق کلمہ پڑھنے کو کہا گیا جسے پڑھنے کے بعد انھوں نے ہمیں گلے لگایا اور کہا کہ "تم اب مسلمان ہو گئے ہو۔"
دو ماہ بعد داعش کے شدت پسند ابو یسف کے گھر آئے اور ان کے ہاتھ باندھ کر انھیں اپنے ہمراہ لے گئے اور ایک پنجرے میں رات بھر کے لیے بند کر دیا۔
ان کے بقول اگلے روز شدت پسند انھیں ایک کمرے لے گئے جہاں انھیں ایک باریش شخص کے سامنے بٹھا دیا گیا جنہیں سب شیخ ابو دیمہ (خون کا باپ) کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔
"شیخ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کافر کیوں ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں میں اپنی پوری زندگی مسلمان رہا ہوں اور ابھی حال ہی میں تم سب کے ساتھ دوبارہ اپنے ایمان کی تجدید کی ہے۔ پھر نے جھوٹ بولا کہ میں سرکاری پولیس میں اس لیے تھا کہ مجھے تنخواہ چاہیے تھی۔"
ابویوسف نے بتایا کہ شیخ نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو اور "ہم تمہارا سر کاٹ دیں گے۔"
بعد ازاں انھیں سات روز تک آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک پنجرے میں ہی قید رکھا گیا اور دن میں صرف ایک بار روٹی اور شوربہ کھانے کو دیا جاتا۔
پھر ابویوسف نے بتایا کہ ایک ہفتے کے بعد ایک شدت پسند آیا اور ان کی جیب میں پستول کی ایک گولی ڈالتے ہوئے بولا کہ "اسے گم نہ کر دینا، کل ہم تمہیں اس سے مار دیں گے۔"
اگلے دن بھی ایسے ہی ہوا اور ایک اور گولی میری جیب میں ڈال دی گئی اور یہ سلسلہ تین روز تک جاری رہا۔
"چوتھے روز انھوں نے کہا کہ ہاں آج ہم تمہیں مار دیں گے اور میں نے ان کی بات کا یقین بھی کر لیا۔"
شدت پسند انھیں دوبارہ شیخ ابو دیمہ کے سامنے لے گئے اور انھیں گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور کیا۔
"انھوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور میں نے شیخ کو چیختے ہوئے سنا کہ قتل کر دو، میں نے اپنی سر پر پستول کی نالی محسوس کی اور اس کی لبلبی دبنے کی آواز آئی لیکن اس میں سے گولی نہیں نکلی۔"
شیخ ابو دیمہ نے تین بار گولی چلانے کا حکم دیا لیکن گولی نہیں چلی جس کے بعد انھوں نے ابویوسف کی آنکھوں سے پٹی ہٹا دی اور انھیں کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ "اب تم کافر نہیں ہو تم ہمارے بھائی ہو۔"
ابویوسف نے بتایا کہ شدت پسندوں نے انھیں دس ہزار عراقی دینار دیے اور وہاں سے روانہ کر دیا۔ لیکن ان کے بقول رہائی کے باوجود یہ واقعات نفسیاتی طور پر ان کے ذہن پر نقش ہو گئے ہیں۔