افغانستان میں داعش سے منسلک گروپ آئی ایس خراسان کو بظاہر گزشتہ برس، امریکی اور افغان افواج کی طرف سے سخت دباؤ کا سامنا تھا، جس میں طالبان کی جانب سے حملے بھی شامل تھے۔ تاہم اب امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ آئی ایس خراسان پھر طاقت پکڑ رہی ہےاور دوبارہ حملے کر سکتی ہے۔
گزشتہ سال امریکی عہدیداروں کا اندازہ تھا کہ افغانستان کے صوبوں ننگرہار اور کنڑ میں مسلسل شکستوں سے دوچار ہونے کے بعد اس کی نصف سے زیادہ فورس کم ہو گئی تھی، اور ایک سال پہلے تک اس گروپ کے وسائل کم ہوتے جا رہے تھے، تاہم اب معاملہ بظاہر اس کے برعکس ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے عہدیداروں کا اندازہ تھا کہ اپنے علاقے کھو دینے کے بعد آئی ایس خراسان کے پاس صرف ایک ہزار کے قریب جنگجو باقی رہ گئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود اس کے حملہ کرنے کی صلاحیتوں کے بارے سوالات بڑھتے رہے ہیں۔
افغانستان میں امریکی افواج کی نگران، یو ایس سینٹرل کمان کے کمانڈر جنرل کینتھ فرینک مکینزی نے پیر کے روز ایک ورچوئل فورم کو بتایا کہ داعش کی نئی قیادت نے اِسے مستحکم ہونے اور سن 2020 کے دوسرے نصف حصے میں مقامی سطح پر حملے کرنے میں اضافےکی اجازت دی۔
تاہم جہاں آئی ایس خراسان کے دوبارہ سے اپنے علاقوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں، وہاں ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ 2021 میں اس گروپ میں کوئی کمی آئے گی۔
ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو تازہ انٹیلی جنس اندازوں کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ یہ گروپ کارروائیاں کرنے کی اپنی رفتار برقرار رکھے ہوئے ہے اور شاید اس میں کابل اور دیگر شہری علاقوں پر حملے کرنے کی صلاحیت بھی برقرار ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ انٹیلی جنس عہدیداروں کو گروپ کی جانب سے بیرونی حملوں میں دلچسپی ظاہر ہونے پر تشویش ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ آئی ایس خراسان، داعش کے گلوبل نیٹ ورک کی سب سے بڑی اور مہلک شاخ ہے، اور اس کے عراق اور شام میں موجود داعش قیادت سے براہ راست رابطے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، خراسان گروپ کو صوبہ کنڑ کے ضلع مانوگئی اور صوبہ ننگرہار کے ضلع آچن سے پوری طرح سے پاک نہیں کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں خصوصاً کابل میں بھی اس کے سلیپر سیل موجود ہیں، اور یہیں اس کا نیا لیڈر شہاب المہاجر جسے ثنا اللہ بھی کہا جاتا ہے، موجود ہے۔
عالمی انٹیلی جنس کے اندازوں کے مطابق، آئی ایس خراسان کے جنگجوؤں کی موجودہ تعداد ایک ہزار سے لیکر ڈھائی ہزار تک ہے، لیکن یہ پانچ ہزار نہیں ہے جس کا کبھی یہ گروپ دعویٰ کیا کرتا تھا۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 12 مہینوں کے دوران، آئی ایس خراسان پر 600 عام شہریوں اور ڈھائی ہزار کے قریب افغان سیکیورٹی اہل کاروں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے کچھ رکن ممالک کی انٹیلی جنس سروسز کو شبہ ہے کہ خراسان کو ایک اور غیر معمولی ذریعے، حقانی نیٹ ورک سے بھی مدد مل رہی ہے، جس کے طالبان اور داعش کی حریف القاعدہ دونوں سے روابط ہیں۔
ایک انٹیلی جنس سروس نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ آئی ایس خراسان کا نیا لیڈر المہاجر، ایک زمانے میں حقانی نیٹ ورک کا ایک درمیانی سطح کا کمانڈر تھا اور اس نے اپنے سابقہ ساتھیوں قریبی رابطے بحال رکھے ہوئے ہیں۔