معروف صحافی عرفان صدیقی نے اپنی گرفتاری اور رہائی کے واقعے کے حقیقی ذمہ داروں کے تعین کے لیے تحقیقاتی کمشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس واقعہ سے حکومت کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ صحافی برادری، عوام اور سول سوسائٹی کے سخت ردعمل کے بعد توقع ہے کہ صحافیوں کے خلاف ایسی مزید کارروائیاں رک جائیں گی۔
نواز شریف کے سابق مشیر عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ کو اپنی گرفتاری اور پھر فوری رہائی کے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کا بیٹا جو گزشتہ 20 برسوں سے دبئی میں ملازمت کر رہا ہے، اس نے راولپنڈی میں ایک گھر تعمیر کرایا تھا جسے اس نے 20 جولائی کو کرائے پر دیا۔ یہ کرایہ دار کوئی اجنبی نہیں بلکہ ایک معروف سرمایہ کار ہے۔ ابھی کرائے نامے کی تیاری کا عمل جاری تھا کہ میرے خلاف یہ کیس بنایا گیا۔ حالانکہ کرائے کے معاہدے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ پولیس کے درجنوں سادہ لباس میں ملبوس مسلح اہل کار رات بارہ بجے میرے گھر پہنچے اور مجھے تھانے لا کر بند کر دیا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ان پر الزام لگایا گیا کہ کرائے پر گھر دے کر پولیس کو اطلاع نہیں دی گئی، جب کہ یہ گھر بیٹے کا ہے اور اسی نے اسے کرائے پر دیا تھا۔ ان کا نام اس معاملے میں کہیں بھی شامل نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہیں رات بھر حوالات میں رکھا گیا اور دوسرے دن ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کر کے جوڈییشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
جیل میں بھی انہیں قصوری چکی میں رکھا گیا جو کہ آٹھ ضرب آٹھ فٹ کی ایک کوٹھری ہے۔ وہاں پہلے سے ہی قتل اور مختلف سنگین جرائم میں ملوث پانچ چھ قیدی موجود تھے۔ وہ جگہ اتنی تنگ تھی کہ وہاں صحیح سے بیٹھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اور پھر اگلے دن اتوار کی تعطیل کے باوجود عدالت کھول کر ان کی ضمانت منظور کی گئی اور رہا کر دیا گیا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی کے اشارے پر انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن پاکستان بھر میں اس پر جو زبردست ردعمل سامنے آیا، اور جس طرح سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی امتیاز سے بالاتر ہو کر عام افراد اور خود پی ٹی آئی کے لوگوں نے ردعمل دیا، وہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یہ بڑی افسوس ناک تاریخ ہے، جو رقم ہوئی ہے۔ حکومت کو پہلی بار جس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے نتیجے میں اب وہ معذرت خواہ بھی ہے اور دفاعی پوزیشن میں چلی گئی ہے۔ اسپیکر نے بھی نوٹس لیا ہے۔ اور مجھے دوستوں نے بتایا کہ خود چیف جسٹس نے بھی کہا کہ انہوں نے آئی جی پولیس سے بازپرس کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ضمانت نہ ہوتی تو وہ خود ضمانت کی منظوری دے دیتے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ سخت عوامی ردعمل کے بعد حکمت کا تقاضا تو یہی ہے کہ حکومت آئندہ کسی کے ساتھ ایسا سلوک نہ کرے۔ لیکن ان کے خیال میں موجودہ حکومت حکمت سے عاری ہے۔ اس واقعہ میں چونکہ حکومت کی جنگ ہنسائی ہوئی ہے، اس لیے کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ذمہ داروں کے تعین کے لیے اقدامات کرے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ان کی گرفتاری کس کی ایماء پر ہوئی اور پھر رہائی کس کی مداخلت سے ہوئی، انہیں کچھ اندازہ نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں طاقت کا سرچشمہ صرف حکومت نہیں۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ وہ نواز حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی اپنی تمام سرگرمیاں چھوڑ چکے تھے۔ وہ کالم لکھ رہے ہیں اور نہ ہی ٹیلی ویژن کے مباحثوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی عمر 70 برس سے زیادہ کی ہو چکی ہے۔ وہ 25 سال تک تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ بعد میں سیاست میں بھی حصہ لیا۔ اب انہوں نے تمام سرگرمیوں سے الگ ہو کر اپنی یاداشتوں کو یکجا کرنے کے لیے گوشہ نشنی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں ان کےخلاف یہ کارروائی کی گئی۔ انہیں نجانے کس چیز سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی، اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کونسا کام نہ کریں۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ان دنوں پاکستان میں میڈیا پر مشکل وقت آیا ہوا ہے۔ قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، چینلز کو روکا جا رہا ہے کہ فلاں کی شکل نہیں دکھانی اور فلاں کی آواز نہیں سنانی۔ یہی حال اخبارات کا ہے۔ کچھ کے اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں۔ کچھ پر مقدمات کھولے جا رہے ہیں۔ بڑے ہی خوف و ہراس کا ماحول بنا ہوا ہے۔ بے شمار صحافی بیروزگار ہو گئے ہیں۔ لوگوں کے کالم شائع نہیں کیے جا رہے۔ مارشل لا میں جب آئین تاراج ہوتا ہے تو سب کو پتا ہوتا ہے کہ مارشل لا ہے۔ اور جب سینسرشپ لگتی ہے تو سب کو پتا ہوتا ہے کہ سینسرشپ ہے۔ لیکن، یہ ایسی سینسرشپ ہے کہ مارشل لا سے کہیں زیادہ زہرناک ہے، کہیں زیادہ گہری ہے۔ لیکن کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔ جب کسی کی جانب انگلی اٹھتی ہے تو کہہ دیتا ہے کہ اسے پتا نہیں۔ پیمرا نے کیا ہو گا۔ پیمرا کہتا ہے کہ ہمیں تو علم ہی نہیں ہے کہ کس نے چینل بند کیے ہیں۔ کیبل آپریٹر کہتے ہیں ہمیں حکم ملا ہے۔
عرفان صدیقی کے مطابق، ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمشن قائم ہونا چاہئے، جو اس بات کا تعین کرے کہ یہ سب کچھ کس کے کہنے پر کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے کوئی ریلیف نہیں چاہئے۔ لیکن، چونکہ اس واقعہ سے حکومت کی جگ ہنسائی ہوئی ہے، اس لیے اس بات کا پتا چلنا چاہیئے کہ کس نے یہ کام کیا تاکہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کا تدارک ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس از خود ایسی کارروائی نہیں کرتی کہ کرایہ داری کیس میں جس کی سزا بہت معمولی ہے، دہشت گردوں کی طرح پکڑنے کے لیے چالیس پچاس لوگ بھیج دیے جائیں۔ کسی کی تو یہ کارروائی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اس وقعے سے حکومت پر کاری ضرب لگی۔ گر حکومت نہ سنبھلی اور ایسی مزید کارروائیاں ہوئیں تو پھر حکومت کے لیے اپنی ساکھ قائم رکھنا اور عوامی ردعمل کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
حکومت کی جانب سے بھی عرفان صدیقی کی گرفتاری پر خفگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی عرفان صدیقی کو ہتھکڑی لگانے کا نوٹ لیا، جب کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے آئی جی اسلام آباد کو معاملے کی رپورٹ سمیت پارلیمنٹ میں طلب کیا۔ حکومت کے اس اقدام سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب یہ گرفتاری ان کے کہنے سے نہیں ہوئی تو پھر کس کی ایما پر نصف شب کو عمل میں لائی گئی تھی۔