ایران کے رہبرِ اعلیٰ اور ہزاروں افراد نے بدھ کے روز داعش کے ہاتھوں پاسدارانِ انقلاب سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سپاہی کے سر قلم کیے جانے پر ماتم کیا، جس ہلاکت نےاسلامی جمہوریہ کے اس مرکزی شہر پر شدید اثرات نمودار ہوئے ہیں، ایسے میں جب عراق اور شام میں اس کی افواج کو ہلاکتوں کا سامنا ہے۔
پچیس برس کے محسن حجاجی کی ہلاکت کا واقعہ متعدد ایرانیوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ شیعہ حکمرانی والے اس ملک میں ماتم اور قربانیوں کا ذکر اذکار ایک متبرک عمل تصور ہوتا ہے۔ اُن کی ہلاکت کے بعد، مصوروں اور دیگر فنکاروں نے وڈیو اور تصویر کشی کے ذریعے حجاجی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے، جب کہ اُن کی ہلاکت پر ایران کی وزارت دفاع کی کارروائیوں پر دبے لہجے میں تنقید سامنے آئی ہے، خاص طور پر شام کے معاملے پر۔
تہران میں اُن کی تدفین کے جلوس میں رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ اِی شریک ہوئے، جنھوں نے ایرانی پرچم میں لپٹے اُن کے جسد خاکی کے پاس کھڑے ہو کر قل پڑھے۔ ماتم کناں افراد نے اُن کے جنازے پر پھول نچھاور کیے، اور جب جلوس سڑک سے گزرا تو نیم سرکاری محافظ شریک تھے، جن میں مردوں نے سیاہ کپڑے جب کہ خواتین نے سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی۔
متعدد افراد نے حجاجی کی تصویر اٹھا رکھی تھی، جب کہ محرم کے جلوس میں آویزاں کی جانے والے کتبے اٹھا رکھے تھے، چونکہ یہ ماہِ محرم کے دن ہیں۔
کئی ایک موجودہ اور سابق سرکاری اہل کار، جن میں پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی اور سابق صدر محمود احمدی نژاد شامل تھے، جنازے کے جلوس میں شرکت کی۔
ماتمی جلوس میں سیاسی رنگ اُس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک مذہبی رہنما نے الزام لگایا کہ اسرائیل اور امریکہ داعش کی پشت پناہی کر رہے ہیں؛ جس پر شرکاٴ کی جانب سے ’’مرگ بر اسرائیل‘ اور ’مرگ بر امریکہ‘ کے نعرے بلند ہوئے۔
منبر پر کھڑے مذہبی رہبر، علی رضا پہنیاں نے کہا کہ ’’ہم قسم کھاتے ہیں کہ تب تک چین نہیں بیٹھیں گے جب تک اسرائیل تباہ نہیں ہوتا۔ اسرائیل ہم حجازی کے سر کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم تمہارے لیڈران کے سر قلم کریں گے۔ محافظو! اسرائیل کی تباہی کے لیے اہنے میزائل تیار رکھو‘‘۔
حجازی اُن کئی محافظوں اور رضاکاروں میں شامل ہیں جو عراق میں ہلاک ہوئے، جہاں وہ داعش کے گروپ یا شام میں لڑنے والی شیعہ ملیشیاؤں کی مشاورت کے فرائض انجام دے رہے تھے، جہاں ایران کی افواج صدر بشار الاسد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اب تک 2000سے زائد اہل کار ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے تقریباً نصف غیر ملکی فوجی ہیں، جن میں افغان اور دیگر شامل ہیں۔