ایران میں حکام نے درجنوں رہائشی اپارٹمنٹس کی چابیاں ان افغان شیعہ جنگجوؤں کے لواحقین کے سپرد کی ہیں جو ایرانی فورسز کی طرف سے شام میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں شیعہ مسلک کے فروغ کے لیے سرکاری فنڈ کے سربراہ آیت اللہ رئیسی سمیت اعلیٰ عہدیدار شریک ہوئے اور 30 فلیٹس کے کنجیاں ان خاندانوں کے حوالے کیں۔
رئیسی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یہ رہائشی یونٹس آستان قدس رضوی انڈاؤمنٹ کی طرف سے "تیار کر کے افغان جنگجوؤں کے خاندانوں کو دیے جا رہے ہیں۔"
یہ افغان جنگجو شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے اور انھیں "مثالی افغان جنگجو" قرار دیا جا رہا ہے۔
ایران کی طرف سے پہلے پہل خفیہ طور پر ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو شام میں لڑنے کے لیے بھیجا جاتا رہا لیکن اب وہاں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے جنگجووں کے کھلے عام بڑے بڑے جنازے کیے جا رہے ہیں اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ریلیاں بھی نکالی جاتی ہیں۔
کابل میں حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ایران میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو اسد حکومت کی حمایت میں لبنانی عسکریت پسند گروپ حزب اللہ اور ایران کے پاسداران انقلاب کے ہمراہ لڑنے کے لیے بھیجے جانے پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
یہ افغان اسد حکومت کے لیے لڑنے والی دوسری بڑی غیر ملکی فورس "فاطمیون بریگیڈ" کا حصہ ہوتے ہیں۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد تقریباً دس سے 12 ہزار ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق اس بریگیڈ میں افغانوں کو مبینہ طور پر ان کی مرضی کے برخلاف بھیجا جاتا ہے یا پھر انھیں اپنے خاندانوں کے لیے بہتر معاشی مراعات کے عوض لڑائی کے لیے روانہ کیا جاتا ہے۔
ایران میں تقریباً تیس لاکھ افغان مقیم ہیں جو کہ افغانستان میں تنازعات کے باعث نقل مکانی کر کے وہاں گئے۔ ان میں سے صرف نو لاکھ پچاس ہزار ہی اندراج شدہ پناہ گزین ہیں جب کہ اکثریت بنیادی حقوق اور کسی باقاعدہ حیثیت کے بغیر ہی یہاں رہ رہی ہے۔
تہران کا کہنا ہے کہ اس کی فورسز دمشق میں حضرت زینب کے مزار کی حفاظت کے لیے شام میں ہے۔ شیعہ مسلک کے لیے یہ مزار مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
آستان قدس رضوی ایک خیراتی انڈاؤمنٹ ہے جو کہ شیعہ مسلک کے آٹھویں امام، امام رضا کے مزار اور اس سے وابستہ املاک کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔