منگل کے روز اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر نکی ہیلے نے کہا کہ اگر صدر ٹرمپ ایران کی جانب سے 2015 کے معاہدے کی تعميل کی اگلے ماہ توثیق نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ امریکہ اس معاہدے سے الگ ہو جائے گا۔
سن 2015 میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس، چین، جرمنی اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا مقصد یہ یقین دہانی کرانا ہے کہ تہران جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرتا۔ اس کے بدلے بین الاقوامی برادری نے ایران پر برسوں سے عائد اقتصادی پابندیاں ختم کر دیں اور اس کے اربوں ڈالر کے منجمد اثاثے واپس کر دیے۔
امریکی کانگریس کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت صدر کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہر نوے دن کے بعد اس معاہدے کی ایران کی جانب سے تعميل کی از سر نو تصدیق کریں۔ اگلی از سر نو تصدیق اکتوبر میں ہو گی ۔ لیکن صدر ٹرمپ کئی بار یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ تہران ممکن ہے اس بار یہ تصدیق حاصل نہ کر سکے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میرا نہیں خیال کہ ایران معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔ ہم نے انہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کانگریس کو ایک بہت سخت خط لکھا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ نہیں سمجھتا کہ وہ پاسداری کر رہے ہیں ۔ لیکن ہمارے پاس وقت ہے اور ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ معاہدے کی روح کے مطابق اس کی تعميل کر رہے ہیں۔
منگل کے روز واشنگٹن میں ایک قدامت پسند تھنک ٹینک میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے سفیر نکی ہیلے نے بظاہر بین الاقوامی برادری کے ان خدشات کی اہمیت کم کرتے ہوئے کہ امریکہ جے سی پی او اے نامی اس معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے، کہا کہ وہ نہیں جانتیں کہ صدر کیا فیصلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی اہم ہے اور اسے لگ بھگ مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اگر صدر ایران کی جانب سے تعميل کی توثیق نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ معاہدے سے الگ ہو رہا ہے۔
اگر صدر ٹرمپ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ایران معاہدے کی تعميل نہیں کر رہا تو کانگریس کے پاس اس بارے میں غور کرنے کے لیے ساٹھ دن ہوں گے کہ آیا امریکی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کر دیا جائے۔