رسائی کے لنکس

نئی ایرانی حکومت آنے سے پالیسی نہیں ترجیحات میں تبدیلی ممکن ہے، تجزیہ کار


ایرانی صدر رئیسی بوشہر کے جوہری پاور پلانٹ کا دورہ کرتے ہوئے۔ 8 اکتوبر 2021ء۔ (فائل فوٹو)
ایرانی صدر رئیسی بوشہر کے جوہری پاور پلانٹ کا دورہ کرتے ہوئے۔ 8 اکتوبر 2021ء۔ (فائل فوٹو)

تجزیہ کار اور صحافی ڈاکٹر راشد نقوی کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ایران میں ایک انتہا پسند حکومت ہے جو مذاکرات کی بات کو تسلیم نہیں کرتی؛ کیونکہ، بقول ان کے، کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی میں اچانک کوئی بڑی تبدیلی حکومت بدلنے سے نہیں آتی۔ البتہ ترجیحات میں تھوڑی بہت تبدیلی آتی ہے۔

بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کی سابقہ حکومت کے دور میں بھی مذاکرات ہو رہے تھے، لیکن پیش رفت نہیں ہو رہی تھی۔ اور اس حکومت کی مذاکراتی ٹیم اسی نتیجے پر پہنچی تھی کہ مذاکرات برائے مذاکرات ہو رہے ہیں؛ نتائج کی طرف نہیں جا رہے۔

ایران میں مقیم تجزیہ کار کے بقول، امریکہ سمیت معاہدے میں شامل ملکوں سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو رہی تھیں۔ اور نئی حکومت بھی یہی موقف رکھتی ہے کہ مذاکرات کا نتیجہ آنا چاہئے، کیونکہ یہ کوئی نیا معاہدہ تو ہے نہیں؛ اس میں ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس میں معاملہ صرف امریکہ کی واپسی کا اور معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کا ہے؛ اور یہ کہ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد بھی موجود ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اب ایسی کونسی تبدیلی آگئی کہ ایران اچانک مذاکرات کے لئے پھر سے نہ صرف تیار ہوگیا بلکہ سرگرم بھی ہوگیا ہے، انہوں نے کہا کہ اوّل تو یورپی ملکوں کی طرف سے مسلسل سفارتکاری کا عمل جاری تھا۔ پھر جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) کی طرف سے بھی یہ اصرار تھا کہ اس مسئلے کو آگے بڑھانے کے لئے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ اسلئے، ایران اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے مذاکرات پر تیار ہوا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اس الزام میں کتنی حقیقت ہے کہ ایران مذاکرات کے بہانے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے، تاکہ مبینہ طور پر اپنے جوہری بم بنانے کے پروگرام کو مکمل کرسکے، انہوں نے کہا کہ ''یہ تو امریکہ اور معاہدے میں شامل دوسرے ملکوں کے ہاتھ میں ہے''۔

ان کے الفاظ میں، ''اگر وہ جلد مذاکرات کرکے معاہدے کو مکمل کرلیں تو پھر تو ایران کو وقت حاصل کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ اگر ایران پر یہ الزام درست ہے کہ وہ وقت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے تو اسے یہ موقع مذاکرات اور معاہدے میں تاخیر کرکے نہیں دیا جانا چاہئے اور معاہدے کی تجدید کرکے اسے پابند کردیا جانا چاہئے کہ وہ اس معاہدے کے تحت جوہری بم بنانے کی جانب نہ جا سکے''۔

مشرق وسطی کے امور کے ماہر اور واشنگٹن میں قائم مڈایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ 2015ء کے معاہدے تک پہنچنے کے لئے برسوں ہر محیط مذاکرات کا سلسلہ چلا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہوگا، کیونکہ، بقول ان کے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے؛ اسکا حل اتنا آسان نہیں ہے جتنا خیال کیا جاتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسکی دو وجوہات ہیں۔ اوّل تو یہ کہ دوسرے زیادہ اہم معاملات کے سبب اس خطے میں امریکہ کے مفادات کم ہو گئے ہیں۔ دوسرے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران جتنا مرضی ہو یورینیم افزودہ کر کرلے، لیکن یورینیم افزودہ کرنے کے بعد بھی ایران کو جوہری بم بنانے میں اتنا وقت لگے گا جو اسے بم بنانے سے روکنے کے لئے ایسے اقدامات کے واسطے کافی ہو گا۔ ان کے ذریعے ایران کو بم بنانے سے روکا جا سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسوقت یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ایران کو اس مرحلے تک پہنچنے میں جہاں وہ بم بنا سکے، 18 مہینے درکار ہوں گے اور یہ مدت ایران کو باز رکھنے کے لئے کافی ہے۔

انہوں کہا کہ جب کسی بھی نوعیت کے مذاکرات میں تعطل پیدا ہو جاتا ہے تو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق متبادل تجاویز پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن، اس معاملے میں کسی بھی فریق نے ایسا نہیں کیا۔ اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ تعزیرات کے باوجود وہ اتنی مشکل میں نہیں ہے جتنی کہ دنیا سمجھتی تھی کہ وہ ہو گا۔

ایسی صورت میں، بقول ان کے، ایران کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کرے کہ جسکی وجہ سے اسے اپنے موقف میں بنیادی تبدیلی کرنی پڑے۔

انھوں نے کہا کہ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، تو اسکی صورت حال یہ ہے کہ یہاں اندرون ملک مسائل اتنے پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ حکومت کے لئے ان پر فوری توجہ دینا ضروری ہو گیا ہے اور عالمی امور کے لئے جو وقت ہے اس میں ایسے مسائل ہیں جو ایران کے ساتھ مذاکرات پر اپنی نوعیت کے اعتبار سے ترجیح رکھتے ہیں۔ اسلئے، وہ نہیں سمجھتے کہ دونوں ہی جانب سے ایسے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے جس سے فوری طور پر کوئی پیش رفت ہو سکے۔

اس حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کے اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات بعد اس بیان کے بارے میں کہ وقت گزرتا جا رہا ہے اور یہ کہ اس بارے میں دوسرے آپشنز بھی دیکھنے ہوں گے، وہ کیا کہیں گے؛ ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ جوہری مسئلے پر کسی سمجھوتے پر ایران کو آمادہ کرنے لئے اس پر دوسرے مسائل کے سلسلے میں اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ وہ جوہری مسئلے پر سمجھوتے کے لئے تیار ہو جائے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ملک یہ فیصلہ کرلے کہ وہ جوہری بم بنائے گا تو وہ یہ کرلے گا۔ اس لئے، ضروری ہے کہ ان وجوہات کو ختم کیا جائے جن کے سب کوئی ملک اس جانب جانا چاہتا ہے اور بم بنانا چاہتا ہے۔ یہی عالمی جوہری پھیلاؤ کو روکنے کا مؤثر طریقہ ہے۔

ادھر، ایران کی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق ایران کے جوہری مذاکرات کار اور نائب وزیر خارجہ ایٹمی معاہدے پر ٹھوس مذاکرات کے لئے جمعرات کے روز برسلز جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ کئی ہفتے تک بالواسطہ مذاکرات ہونے کے بعد مہینوں سے یہ مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

XS
SM
MD
LG