ایران نے کہا ہے کہ اگر 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے میں شامل دیگر فریق اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کریں گے، تو وہ اقوامِ متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کی جانب سے اچانک معائنوں کو روک دے گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے کا کہنا ہے کہ اگر دیگر فریق، 21 فروری تک اپنے وعدے پورے نہیں کریں گے تو پھر حکومت مجبور ہو گی کہ وہ اضافی پروٹوکول کے رضاکارانہ نفاذ کو روک دے۔
خطیب زادے کا کہنا ہے کہ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایران اقوامِ متحدہ کے نگراں ادارے کے تمام معائنے روک دے گا۔
امریکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر دوسرا حریف اپنا راستہ تبدیل کرتا ہے اور اپنے وعدوں کا احترام کرتا ہے، تو یہ سارے اقدامات قابلِ واپسی ہیں۔
عالمی جوہری نگران ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے لیے ایران کے سفیر نے پیر کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ایران نے آئندہ ہفتے سے نافذ العمل اپنے منصوبے کے بارے میں ادارے کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ جوہری معاہدے کے تحت، ادارے کو دیے گئے بہت سے اختیارات کو ختم کر رہا ہے۔
گزشتہ سال ایران کی جانب سے کی گئی قانون سازی کے تحت، اگر جوہری معاہدے میں شامل دیگر فریق معاہدے کی پوری طرح سے پاسداری نہیں کریں گے تو، 21 فروری سے ایرانی حکومت، آئی اے ای اے کے معائنے صرف ایران کے اعلان کردہ جوہری مقامات تک محدود کر دیگی، اور اُن اختیارات کو ختم کر دیگی، جن کے تحت، نگران ادارہ مختصر نوٹس پر کسی بھی مقام سے معلومات اکٹھی کرنے کیلئے اس تک رسائی حاصل کرسکتا تھا۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکہ کو ایران سے طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ کر دیا تھا۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ کا ہدف معاہدے میں امریکہ کی واپسی ہے۔ معاہدے کے تحت ایران نے پابندیوں میں نرمی کے عوض، یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کےمعاہدے سے الگ ہونے اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے بعد، ایران نے بھی یورینیم افزودگی سے متعلق حدود کی خلاف ورزی شروع کر دی تھی۔ اب امریکہ اور ایران کے درمیان معاہدے کی بحالی پر عدم اتفاق پایا جاتا ہے، اور اس کی وجہ دونوں فریقوں کی جانب سے یہ اصرار ہے کہ پہلے دوسرا فریق معاہدے کی پاسداری شروع کرے۔
ایران کے اس سخت موقف کے باوجود کہ پہلا قدم امریکہ اٹھائے، گزشتہ ہفتے متعدد ایرانی عہدیداروں نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث ایران کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے ،معاہدے کی بحالی کیلئے ہو سکتا ہے کہ ایران، شرائط پر کچھ لچک کا مظاہرہ کرے۔
قطر کے وزیر خارجہ، شیخ محمد بن عبدل رحمان ال تھانی کا گزشتہ ہفتے کہنا تھا کہ دوحہ اس معاہدے کی بحالی کیلئے مشاورت کر رہا ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ قطری وزیر خارجہ، آئندہ پیر کے روز، ایران کے صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات کیلئے، ایران آئیں گے۔
خطیب ذادے کا کہنا ہے کہ ایران ، قطر جیسے دوست ممالک کی کاوشوں کو خوش آمدید کہتا ہے اور تہران اور دوحہ کے درمیان مختلف سطح پر مشاورت جاری ہے۔
تہران طویل عرصے سے یورینیم کی افزودگی کے ذریعے کسی ایٹمی ہتھیار کی تیاری کو مسترد کرتا آیا ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے اس کے انٹیلی جنس کے وزیر کا کہنا تھا کہ مسلسل مغربی دباؤ کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ ایران کو مجبوراً ایٹمی ہتھیار بنانا پڑیں۔
تاہم خطیب زادے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی سن 2000 میں ایک فتوے کے ذریعے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے پر پابندی عائد کر چکے ہیں۔