ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے پر ان کا ملک پہلے کبھی بھی اتنا قریب نہیں رہا ہے۔
وڈیو شیئرنگ کی ایک مقبول ویب سائیٹ "یوٹیوب" پر نشر ہونے والے ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید دکھائی دیتی ہے کیونکہ "وہ سراب کی بجائے وجوہات کو جمع ہوتا دیکھ رہے ہیں۔"
ان کے بقول وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان سے مذاکرات کرنے والے فریقین اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ طاقت اور دباؤ کبھی بھی پائیدار حل کا راستہ نہیں بلکہ یہ تنازع کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
ایران اور چھ عالمی طاقتیں (برطانیہ، فرانس، روس، چین امریکہ اور جرمنی) تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک حتمی معاہدے کے لیے بات چیت میں مصروف ہیں۔
جمعہ کو امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری اور جواد ظریف کے درمیان آسٹریا کے شہر ویانا میں ملاقات ہوئی تھی جس میں معاہدے کی راہ میں حائل اختلافات پر بات چیت ہوئی۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے وفود مذاکرات میں پیش رفت تیز کرنے کے لیے سخت محنت اور یکسوئی سے کام کر رہے۔
جوہری پروگرام سے متعلق حتمی معاہدہ طے کرنے کے لیے 30 جون تک کی معیاد مقرر کی گئی تھی لیکن اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہونے پر یہ معیاد سات جولائی تک بڑھا دی گئی ہے۔
ادھر جوہری توانائی کے نگران عالمی ادارے کے سربراہ یوکیا امانو کا کہنا ہے کہ اگر تہران تعاون کرے تو وہ ماضی میں ایران کے جوہری پروگرام کے مشتبہ طور پر عسکری پہلوؤں سے متعلق جائزہ رپورٹ رواں سال کے آخر تک جاری کر سکتے ہیں۔
یوکیا امانو نے رواں ہفتے ہی ایران کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے اعلیٰ قیادت اور سینیئر عہدیداروں سے ملاقاتیں کی تھیں۔