رسائی کے لنکس

اقتصادی تعلقات معمول پر لائیں، ایران کی یورپ کو تنبیہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایران نے یورپی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ اقتصادی روابط معمول پر لے آئیں بصورت دیگر نتائج کے لیے تیار رہیں۔

ایران پر حال ہی میں عائد ہونے والی امریکی تعزیرات کے بعد متعدد یورپی ممالک نے بھی ایران سے اقتصادی روابط کو محدود کر دیا تھا۔

خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ جوہری معاہدے سے ہٹ کر یورپی ممالک اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ ایران کی فوجی صلاحیت پر تنقید کرسکیں۔

خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ سال ایران کے ساتھ سنہ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے، ٹرمپ انتظامیہ کا موقف تھا کہ اوباما انتظامیہ اور یورپی ممالک کے ایران کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے میں کئی خامیاں ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کے بقول اس معاہدے کے تحت ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو استثنٰی دے دیا گیا تھا، جبکہ ایران خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تصادم کی پالیسی پر بھی گامزن ہے۔

امریکہ کے علاوہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی امریکہ کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ایران سے متعلق انہی خدشات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم ان ممالک نے جوہری معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اس معاہدے سے کم سے کم ایران کے جوہری پروگرام پر پابندی عائد ہے اور اسی کے ذریعے مذاکرات کا راستہ بھی کھلا ہے۔

امریکہ نے گزشتہ ماہ ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنی بھی ختم کردیا تھا جس پر ایران نے یورپی ممالک کو 60 روز کا الٹی میٹم دیا تھا کہ وہ امریکہ کی نئی تعزیرات کے معاشی اثرات سے ایران کو بچائیں۔

ایران نے یہ بھی دھمکی دی تھی کہ وہ بھی جوہری معاہدے سے الگ ہو کر یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دے گا۔

ایران کے خبررساں ادارے فارس نیوز کے مطابق ایران کی پارلیمینٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے فرانس کے صدر میکرون کو ایران سے متعلق امریکی موقف کی تائید کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

علی لاریجانی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران فرانسیسی صدر کا ایران سے متعلق بیان شرمناک تھا۔

ایران کا یہ موقف رہا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں پرامن مقاصد کے لیے ہیں تاہم وہ اپنے میزائل پروگرام کی تفصیلات دینے سے گریز کرتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG