وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی کی قیادت میں ایران کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے جمعہ کو اسلام آباد میں ملاقات کی، جس میں اقتصادی تعاون سمیت دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے پر بات چیت کی گئی۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے عہدے داروں نے بتایا کہ ایرانی وزیر نے صدر زرداری کو اگست میں تہران میں ہونے والے غیر وابستہ تحریک کے سولہویں سربراہ اجلاس میں شرکت کی باضابطہ دعوت بھی دی۔
ایرانی وزیرِ خارجہ بھارت سے پاکستان پہنچے جہاں اُنھوں نے وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کو بھی اپنی قیادت کی طرف سے 26 سے 31 اگست کو ہونے والے سربراہ اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ پہنچایا۔ اس اجلاس میں تحریک کی آئندہ تین سال کی صدارت کی ذمہ داری مصر سے ایران کو منتقل کی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے تقریباً دو تہائی رکن ممالک غیر وابستہ تحریک میں شامل ہیں جب کہ 17 ملکوں کو تنظیم میں مبصر کا درجہ حاصل ہے۔
علی اکبر صالحی کی سربراہی میں ایرانی وفد کی پاکستانی رہنما سے بات چیت سے قبل جمعرات کو دونوں ممالک نے 1,000 میگاواٹ بجلی کی خرید و فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کے تحت ایران سے بجلی کی درآمد کا منصوبہ تین سال میں مکمل ہوگا اور اس پر اُٹھنے والے اخراجات کا 70 فیصد ایران ادا کرے گا۔
توانائی کے شعبے میں تعاون کے سلسلے میں ایران نے پہلے ہی بلوچستان کو محدود پیمانے پر بجلی کی فراہمی شروع کر رکھی ہے۔
تہران کے متنازع جوہری پروگرام کے تناظر میں امریکی دباؤ کی وجہ سے پاک ایران تعاون کے مستقبل پر مبصرین شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں، مگر حکومتِ پاکستان بار ہا اپنا یہ موقف دہرا چکی ہے کہ امریکی تحفظات سے قطع نظر ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر دستیاب ذریعے کا استعمال کیا جائے گا۔
پاکستان کو توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایران کے علاوہ وسطی ایشیائی ملکوں خصوصاً تاجکستان اور ترکمانستان سے بھی بجلی اور قدرتی گیس کی درآمد کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔
ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی موسم گرما میں بجلی کی رسد اور کھپت میں اوسطاً 5,000 میگا واٹ کے فرق کی وجہ سے ملک کے اکثر علاقوں میں حکومت طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ پر مجبور ہے، اور اس پالیسی کے خلاف خصوصاً پنجاب کے مختلف شہروں میں پُرتشدد احتجاجی مظاہرے معمول بن گئے ہیں۔
ایسے ہی ایک احتجاج میں جمعہ کو صوبائی وزیرِ اعلیٰ شہاز شریف نے بھی شرکت کی اور وفاقی حکومت پر الزام عائد کیا کہ پنجاب کو غیر ضروری لوڈشیڈنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اُنھوں نے وزیر اعظم گیلانی سے مطالبہ کیا کہ حال ہی میں لاہور میں منعقد کی جانے والی قومی توانائی کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔
’’اُنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ پورے پاکستان میں یکساں طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو گی ... (لیکن) وعدہ خلافی کی گئی۔ جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے پنجاب اور پاکستان کے عوام چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
لیکن وفاقی حکومت کے نمائندے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اس تنقید کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ توانائی کے بحران کے حقائق سے آگاہ ہونے کے باوجود احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرکے اسے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم گیلانی نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ آئین پاکستان کسی صوبے کو اپنے طور پر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرنے سے نہیں روکتا اور پنجاب حکومت نے گزشتہ چار برسوں میں اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا ہے۔