ایران نے عالمی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں ایران پر مجوزہ امریکی پابندیوں کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اقتصادی پابندیا ں دوبارہ عائد کرنے کا حکم دیا ہے جو 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد ہٹا لی گئی تھیں۔
عالمی عدالت انصاف نے منگل کے روز جاری ہونے والے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ ایران نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ امریکہ کی طرف سے یہ پابندیاں ختم کرنے کا حکم جاری کرے کیونکہ ایران کے بقول یہ پابندیاں 1955 میں شاہ ایران کے دور میں طے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی ہیں جسے ’دوستانہ اور اقتصادی تعلقات کے معاہدے‘ کا نام دیا گیا تھا۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جاوید ظریف نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے سفارتکاری اور قانونی ضابطوں سے انحراف کے برخلاف ایران قانون کی حکمرانی کے اصول پر کاربند ہے۔
اُدھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کی درخواست بے بنیاد ہے اور امریکہ عالمی عدالت انصاف میں اس کی بھرپور مخالفت کرے گا۔
ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ کے درمیان 2015 میں طے پائے گئے ایک سمجھوتے کے تحت ایران کی طرف سے یورانیم کی افزودگی ختم کرنے کے عوض ایران پر سے تمام اقتصادی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے اس سال مئی میں اسے ایک خراب معاہدہ قرار دیتے ہوئے اس معاہدے سے نکل جانے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا اشارہ دیا تھا جو آئیندہ ماہ سے نافذالعمل ہو جائیں گی۔
پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کے عمل سے ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی تمام بین الاقوامی کمپنیاں متاثر ہوں گی جن میں ایران سے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے والے امریکہ کے سوا باقی تمام ممالک کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ نئے معاہدے پر بات چیت کرنے کے خواہاں ہیں۔ تاہم ایران اس سے انکار کرتا ہے جبکہ ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر تمام ممالک کا کہنا ہے کہ وہ بدستور معاہدے کی پاسداری کرتے رہیں گے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ سے بھارت کی ایران سے تیل کی درآمدات بھی شدید طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔ بھارت ایران سے تیل خریدنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے ۔