رسائی کے لنکس

ایران: مظاہروں میں شریک ایک شخص کو پھانسی دے دی گئی


ایران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں، فائل فوٹو۔
ایران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں، فائل فوٹو۔

ایران میں جمعرات کے روز محسن شکاری نامی ایک شخص کو پھانسی دے دی گئی۔اسے مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس پر الزام تھا کہ اس نے سڑک پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور نیم فوجی دستے کے ایک اہل کار کو زخمی کیا۔

عدلیہ کی آن لائن ویب سائٹ میزان کا کہنا تھا کہ محسن شکاری ایک فسادی تھا جس نے 25 ستمبر کو تہران میں ستار خان اسٹریٹ کو بند کیا تھا اور ایک سیکیورٹی گارڈ پر خنجر سے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا تھا۔

محسن شکاری
محسن شکاری

میزان آن لائن پر فراہم کی جانے والی مزید تفصیلات کے مطابق تہران کی انقلابی عدالت کو بتایا گیا کہ محسن شکاری کو نیم فوجی فورس باسیج کے ایک اہلکار کے کندھے پر خنجر سے وارکرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ ادارے کے مطابق اہلکار شدید زخمی ہوا تھا اور اسے 13 ٹانکے لگے تھے۔

باسیج ریاست کی منظور شدہ ایک رضاکار فورس ہے جو ایران کی طاقتور فورس پاسداران انقلاب سے منسلک ہے۔

عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ محسن شکاری قتل کے ارادے سے ہتھیار سے وار کرنے، دہشت پھیلانے اور معاشرے کے نظم و نسق کو بگاڑنے کا مجرم پایا گیا۔

میزان نے کہا کہ عدالت نے محسن شکاری کو ایران کے اسلامی شرعی قانون کے تحت ’محاریبہ یا خدا کے خلاف جنگ‘ کا مجرم قرار دیاہے۔

محسن شکاری نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی لیکن ایران کی سپریم کورٹ نے 20 نومبر کو اپنے فیصلے کو برقرار رکھا۔

بیرون ملک مقیم انسانی حقوق کے کارکنوں نے عدلیہ کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔

اوسلو میں قائم گروپ ایران ہیومن رائٹس (آیی ایچ آر) کے ڈائریکٹر محمود امیری نے کہا کہ محسن شکاری کی پھانسی پر سخت ردعمل ظاہرہونا چاہیے ورنہ ہمیں روزانہ مظاہرین کی پھانسیاں دیکھنی پڑیں گی۔

انہوں نے کہا کہ محسن شکاری کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے ایک نمائشی عدالتی کارروائی میں موت کی سزا سنائی گئی۔

انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس پھانسی کے خلاف سخت ردعمل اور اس عمل کی مذمت ہونی چاہئے۔

تہران میں اخلاقی پولیس نے تین ماہ قبل حجاب پہننے کےڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو گرفتار کیا تھا،جن پر حراست کے دوران مبینہ طور پر سخت تشدد کیا گیا اور طبی حالت خراب ہونے پر اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی موت واقع ہو گئی۔

ان کی ہلاکت کے خلاف دو ماہ سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد بھی مظاہرے جاری ہیں اور پولیس کی پر تشدد کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔

ایران ان مظاہروں کو ’فسادات‘ قرار دیتا ہےاور الزام لگاتا ہے کہ یہ اس کے کٹر دشمنوں امریکہ اور اس کے اتحادیوں بشمول برطانیہ اور اسرائیل نے بھڑکائے ہیں۔

بدھ کو ایران کی انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس کی سیکیورٹی فورسز کی پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں میں 63 بچوں سمیت کم از کم 458 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کریک ڈاؤن پر بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تنقید ہوئی ہے جس میں ایرانی حکام نے ماہرین تعلیم، صحافی اور وکلاء سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا ہے۔

تازہ ترین پھانسی سے قبل، لندن میں مقیم انسانی حقوق کے ایک گروپ نے کہا کہ ایران میں ملک گیر احتجاج کے الزام میں گرفتار کم از کم 28 افراد کو، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں، سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

گروپ نے 2 دسمبر کو جاری کردہ ایک بیان میں ایرانی حکام پر الزام لگایا کہ وہ عوام میں خوف پیدا کرنے اور عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے سزائے موت کو سیاسی جبر کے ایک آلے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے 24 نومبر کو ایرانی کریک ڈاؤن کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG