امریکہ کا اگلا صدر بننے کے خواہاں تین ڈیموکریٹ امیدواروں نے پیر کی رات آئیووا میں ووٹروں کے سامنے اپنے نقطہ نظر کے تفصیلی خدو خال پیش کیے، جہاں آئندہ ہفتے کئی ماہ تک جاری رہنے والے ریاستی کاکسز کا عمل شروع ہونے والا ہے، جس دوران 2016ء کے پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی عمل میں آئے گی۔
سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 'سی این این' کی جانب سے منعقد کردہ ٹائون ہال کو بتایا کہ وہ ''لڑاکا عزم'' کی مالک رہی ہیں اور صدر براک اوباما کی کابینہ کی رُکن کی حیثیت سے کام کا تجربہ رکھتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ فوجی عمل آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیئے، برعکس اِس کے، سفارت کاری کو آزمانا چاہیئے، حالانکہ اِس عمل ''سست'' اور ''بیزار کُن'' خیال کیا جاتا ہے۔
ہیلری کلنٹن نے ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ صدارتی نامزدگی کے خواہشمند، ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کے بارے میں بیانات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے، اِنہیں ''نامناسب، نازیبا اور امریکی اقدار کے منافی'' قرار دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کو ''ساتھ لے کر چلا جائے۔''
بقول اُن کے، ''اپنا، اپنے اہل خانہ، اپنے بچوں اور باقی ہم سبھی کا دفاع کرنے کے لیے وہ (مسلمان) محاذ کی صفِ اول پر کھڑے ہیں، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اِسی حقیقت کا سامنا ہے''۔
بقول اُن کے، ''داعش کے شدت پسند ٹولے کو شکست دینے کے لیے ہمیں ایسے اتحاد کی ضرورت ہے جس میں مسلمان ممالک شامل ہوں۔ لیکن اگر آپ اپنا وقت اُن کے مذہب کی بے حرمتی میں ضائع کریں گے تو پھر اتحاد میں جن ملکوں کی ضرورت ہے وہ کیونکر اس میں شامل ہوں گے۔اِس لیے، ہمیں اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور اس بات کی نشاندہی کرنی ہوگی کہ یہ رویہ غلط ہے''۔
ڈیموکریٹس میں ہیلری کلنٹن نے خیالات کا واضح اور برملا اظہار کیا۔ تاہم، لگتا یوں ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرز آئیووا میں مقبولیت کے اعتبار سے اندازاً اُن کے ہم پلہ ہیں۔
ہیلری کلنٹن کے حوالے سے، سینڈرز نے کہا کہ صدر کے لیے تجربہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن، قوتِ فیصلہ بھی اتنی ہی ضروری ہے، اور یہ کہ اُن کے پاس تجربے اور فیصلے کی اتنی طاقت ہے کہ وہ مختلف معاملات سے بہتر طور پر نبردآزما ہو سکیں۔
اُنھوں نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران اُنھوں نے امریکیوں کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے، جو بخوبی جانتے ہیں کہ مروجہ سیاسی نظام کارگر ثابت نہیں ہوا۔
سینڈرز کے بقول، ''مجھے یوں لگتا ہے جو ملک کی حیثیت سے آج ہمیں جن بحرانوں سے واسطہ ہے۔۔اور کافی حد تک ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے خاص تگ و دو نہیں کی۔۔ عدم مساوات، امریکہ میں غربت، انتخابی مہم میں ناشائستہ اور غیر منصفانہ مالیاتی نظام، یہ مسائل اتنی سنجیدہ نوعیت کے ہیں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست اور معیشت کے تناظر سے باہر نکل کو سوچنا ہوگا''۔
اُن کے الفاظ میں، ''میرے خیال میں، ہمیں ایسے سیاسی انقلاب کی ضرورت ہے جہاں لاکھوں لوگ اٹھ کھڑے ہوں اور اس بات کا اقرار کریں کہ ہماری عظیم حکومت ہم سب کی ہے، نا کہ محض چند حضرات کی''۔
میری لینڈ کے سابق گورنر، ماٹن او مائلی رائے عامہ کے جائزوں میں پیچھے رہ گئے ہیں، لیکن وہ اپنی نامزدگی کے حصول کے سلسلے کے عزم میں پختہ ہیں۔ اُنھوں نے ٹائون ہال کو بتایا ہے کہ، ''میں جیت کی لگن سے میدان میں کھڑا ہوں۔''
کاکس کا عمل
کاکس کے مروجہ عمل میں اومائلی کی آئیووا میں موجودگی اہم ہے۔ اگر وہ 15 فی صد حمایت حاصل نہیں کرپاتے تو وہ میدان میں نہیں رہیں گے، پھر اُن کے حامی ہیلری یا سینڈرز کو چننے کے مجاز ہوں گے، اور امکان بھی اِسی بات کا لگتا ہے کہ اِن دونوں میں سے کسی ایک کی نامزدگی ہوگی۔
اومائلی کالج کی قابلِ برداشت تعلیمی اخراجات، سابقہ فوجیوں کے لیے ملازمتیں اور امی گریشن اصلاحات کے حامی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گورنر کی حیثیت سے وہ مساوی حقوق کے حامی رہے ہیں، اور اُن کی ریاست نے ہم جنس پرستوں کی شادی کی اجازت دی اور جنس کی بنیاد پر کسی امتیاز برتنے کے مخالف رہے ہیں۔