رسائی کے لنکس

ریاض پیرزادہ کا فوج سے متعلق بیان، 'جنوبی پنجاب سے بھی آوازیں اُٹھنا تشویش ناک ہے'


سینئر سیاست دان اور پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں ریاض حسین پیرزادہ کے فوج سے متعلق بیان پر پاکستان میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔

چند روز قبل قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے ریاض پیرزادہ نے اپنے حلقہ انتخاب چولستان کی زمینوں پر فوج کے مبینہ قبضوں اور فوج کے کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر تنقید کی تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ان اقدامات سے عوام کی نظروں میں فوج کا احترام کم ہو رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعد جنوبی پنجاب کے سیاسی رہنما کا فوج سے متعلق بیان تشویش ناک ہے جب کہ دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فوجی افسران اور اہل کار چوں کہ جلد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ لہذٰا اُن کی گزر بسر کے لیے فوج کو اپنے زیرِ انتظام کاروباری منصوبے شروع کرنا پڑتے ہیں۔

اپنی تقریر میں سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فوج کی کاروباری سرگرمیوں کے لیے جنوبی پنجاب میں زمینیں حاصل کی جا رہی ہیں اور چولستان کے علاقے سے فوج آٹھ، آٹھ سو سال سے آباد لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رہی ہے۔

ریاض پیرزادہ کہتے ہیں کہ بہاولپور کے لوگوں کے ساتھ فوج کی جانب سے ویسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے، جیسا امریکہ میں ریڈ انڈینز کے ساتھ روا رکھا گیا اور انہیں ان کے علاقوں سے ہی محروم کیا جا رہا ہے۔

سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کی وجہ سے فوج کی بدنامی ہو رہی ہے اور عوام کے دلوں میں اپنے محافظوں کی عزت و احترام میں کمی آ رہی ہے۔

ریاض پیرزادہ نے سوال کیا کہ فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی اجازت کس نے دی ہے اور وہ کن قواعد کے تحت فوجی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بناتے ہیں۔

ملک کی فوج کے زیرِ انتظام کاروباری سرگرمیوں پر ماضی میں بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ تاہم کسی منتخب رکنِ پارلیمان کی فوج کے کاروبار پر براہ راست تنقید کو غیر معمولی اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایوان میں فوج کے زیرِ انتظام کاروبار کی تفصیلات کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اُس وقت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا تھا کہ فوج تقریباً پچاس اقسام کے کاروبار کر رہی ہے جن میں رہائشی کالونیاں، اسکول، اسپتال، ریستوران، اصطبل، شوگر ملیں، بینک اور ایئرلائنز کے علاوہ دلیہ، کھاد، سیمنٹ، دودھ، ایندھن، انشورنس اور ایڈورٹائزنگ کا بزنس بھی شامل ہے۔

'ریٹائرڈ فوجیوں کے ذرائع آمدن کے لیے کاروباری ادارے بنائے گئے'

سینئر صحافی و تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ریاض حسین پیرزادہ پرانے منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک اور جذباتی بھی ہیں، جس کی وجہ ان کے والد کو فرقہ وارانہ انتہا پسند جماعت کالعدم سپاہ صحابہ کی جانب سے قتل کیا جانا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر ماضی میں بھی بات ہوتی رہی ہے۔ تاہم جنوبی پنجاب سے اس ردعمل کا آنا صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

تجزیہ کار ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ افواج سے وابستہ افراد دیگر شعبوں کی نسبت بہت جلد ریٹائر ہو جاتے ہیں اور انہیں ملنے والی پینشن کی رقم اس قدر نہیں ہوتی کہ وہ گزر بسر کر سکیں۔ لہذا ان کے لئے متبادل ذرائع آمدنی کے طور پر ایسے کاروباری اداروں کو لایا گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں بہت سی افواج سویلین سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں اور فوج کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ملک کے معاشی و اقتصادی حالات کو بہتر کرنے میں ان سرگرمیوں کو مثبت انداز میں لیا جانا چاہیے۔

'بلوچستان, سندھ کے بعد جنوبی پنجاب سے فوج مخالف بیانات تشویش ناک ہیں'

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں علیحدگی کی باتیں چل رہی ہیں سندھ میں فوج پر حملے ہورہے ہیں ایسے میں اگر جنوبی پنجاب سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں تو یہ بہت قابل تشویش بات ہے۔ اُن کے بقول معاملات اس نہج پر نہیں پہنچنے چاہئیں کہ باتیں جلسوں اور جلوسوں میں ہونے لگیں۔

'فوج ایسی سرگرمیاں نہ کرے جس سے عام آدمی متاثر ہو'

سہیل وڑائچ کے بقول ریاست کو طے کرنا ہو گا کہ فوج اور دیگر اداروں کے درمیان کہاں حد بندی طے کرنی ہے۔

ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود نے بھی کہا کہ فوج کو ایسی سرگرمیاں شروع نہیں کرنی چاہئیں جس سے عام آدمی کے متاثر ہونے کا تاثر جائے۔

ان کی نظر میں فوج کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ان کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہوا جائے تاکہ ان پر تنقید نہ کی جا سکے۔

'بات نہ کریں تو گھٹ کر مرتے ہیں کریں تو مار دیے جاتے ہیں'

ریاض پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ہماری فوج کے موجودہ کور کمانڈرز نے دہشت گردوں کے خلاف براہ راست جنگ لڑی ہے۔ اسی بنا پر دشمن ہماری فوج سے گھبراتا ہے لیکن ہم نے فوج کو کاروبار اور اپنے عوام پر تھانے داری کے لیے لگا دیا جس سے عوام میں ان کی قدر کم ہو رہی ہے۔

ریاض پیرزادہ کہتے ہیں کہ عوام نے انہیں چھ مرتبہ رکنِ پارلیمان منتخب کیا اگر وہ ان مسائل پر بات نہ کریں تو یہ انہیں منتخب کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ لیکن حالات ایسے ہیں کہ بات نہ کریں تو مرتے ہیں بات کریں تو پہاڑ کو سر مارنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ موت سے خوف نہیں کھاتے۔ ان کے والد کو 35 روپے کی بندوق کی گولی سے قتل کر دیا گیا۔ انہیں بھی زیادہ سے زیادہ تین سو روپے کی گولی سے خاموش کرا دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ریاض پیرزادہ چھٹی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں اور ان کے والد بھی بہاولپور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔

'فوج پر تنقید نہیں حلقے کے عوام کی تکلیف آئینی فورم پر پہنچائی'

وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ اگرچہ فوج کی جانب سے باقاعدہ طور پر اس حوالے سے ان سے رابطہ نہیں کیا گیا البتہ سیاسی جماعتوں اور ریٹائرڈ فوجی افسران نے ان سے ملاقات کر کے تقریر کو سراہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بطور رکنِ پارلیمنٹ آئینی فورم پر اپنے حلقے کی عوام کی تکلیف بیان کی ہے اور اسے فوج پر تنقید نہیں بلکہ اصلاح کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

ریاض پیرزادہ نے کہا کہ وہ ریاستی اداروں بالخصوص ملک کے دفاعی اداروں پر عوامی سطح پر تنقید کے حامی نہیں ہیں، لیکن ایک سیاست دان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اداروں کی اصلاح کے لئے آئینی فورم پر آواز اٹھاتا رہے۔

خیال رہے کہ تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے پاکستانی فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر 2007 میں ایک کتاب لکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مختلف اقسام کے کاروبار میں پاکستانی فوج کے سرمائے کی مالیت بیس ارب ڈالر ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے اس کتاب میں شامل اعداد و شمار کو غلط قرار دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG