لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد عدنان ایک اسٹوڈنٹ ہیں اور اپنی تعلیم اور روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے آن لائن رائیڈنگ ایپ بائیکیا کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تین روز سے انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے انہیں رائڈز نہیں مل رہی ہیں اور شہر میں بے یقینی کی وجہ سے وہ یونیورسٹی بھی نہیں جا پا رہے۔
کراچی میں رہنے والے فری لانسر محمد حسان، فوڈ ڈیلیوری کے لیے کام کرنے والے محسن یا دفتر میں کھانا منگوانے والے عدیل سبھی کے معمولات زندگی انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے متاثر ہیں۔
اسلام آباد میں بیرونِ ملک سے چھٹیوں پر آئے ہوئے احمد بلال کو اپنی فلائٹ کے لیے ایئرپورٹ پر پہنچنا ہے لیکن انٹرنیٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے انہیں آن لائن کیب نہیں مل رہی ہے اور ایک آن لائن کیب کی ایپ سے آمدن پر انحصار کرنے والے احمد بھی تین روز سے پریشان ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی نو مئی کو گرفتاری کے بعد سے پاکستان کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروسز محدود کر دی گئی تھیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں انٹرنیٹ سروس کی رفتار انتہائی سست ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروسز وفاقی وزارتِ داخلہ کے احکامات پر معطل کی گئی ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتِ حال پیش ہونے کے بعد انٹرنیٹ تک رسائی بند یا محدود کی گئی ہو۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بڑھتے انحصار کی وجہ سے انٹرنیٹ میں رکاوٹ نہ صرف لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی بھاری نقصان کا باعث ہے۔
مالی نقصان کتنا ہے؟
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن(پاشا) کے چیئرمین زوہیب خان کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش سے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ کو روزانہ کم از کم 50 سے 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نقصان ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ملک کو ڈالرز کی اشد ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ سینسر شپ اور حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے گزشتہ تین روز میں 52 ملین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں فری لانسنگ سمیت آئی ٹی سے جڑے دیگر کاموں میں آنےو الی رکاوٹوں سے ہونے والا نقصان شامل ہے۔
فری لانسر محمد حسان کا کہنا ہے کہ وہ فری لانس کام کے لیے ’فائیور‘ پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہیں اور انٹرنیٹ کی صورتِ حال کے پیشِ نظر اس پلیٹ فارم نے ایک طرح سے پاکستان کو ڈی لسٹ کردیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فائیور نے پاکستان کو ان ممالک میں شامل کردیا ہے جن کے فری لانسرز کو پلیٹ فورم پر ’ان اویلیبل‘ یعنی دستیاب نہیں ظاہر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ہم اس اسٹیٹس کو خود سے تبدیل کرسکتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے فری لانسر کی رینکنگ متاثر ہوتی ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ فری لانسنگ میں مقابلہ بہت سخت ہے اس لیے کسی بھی ملک کے فری لانسر کی رینکنگ متاثر ہونے سے دیگر مارکیٹس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اس کے علاوہ فائیور کے ساتھ ساتھ ’اپ ورک‘ اور دیگر فری لانسنگ پلیٹ فارمز کے ذریعے کام کرنے والے فری لانسر ز کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
جس نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا
پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ موبائل فون پر ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی انٹرنیٹ سروس متاثر ہے۔
اسامہ خلجی کے مطابق موبائل براڈ بینڈ کی بندش کی وجہ سے سب سے زیادہ کم آمدن والا طبقہ متاثر ہوا ہے۔ اس میں فوڈ ڈیلیوری، گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی سواری کی ایپلی کیشنز؛ بائیکیا، کریم اور اوبر کے ذریعے روزگار حاصل کرنے والے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ موبائل براڈ بینڈ کی بندش سے ٹیلی کام سیکٹر اور خود حکومت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان میں کاروباری خبروں کی کوریج کرنے والے موقر اخبار ’بزنس ریکارڈر‘ کے مطابق ملک میں موبائل براڈ بینڈ کی بندش کی وجہ سے ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک دن میں 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے اور اس کی وجہ سے حکومت کو ریونیو کی مد میں 28 کروڑ 70 لاکھ سے زائد کا نقصان ہوا ہے۔
پاشا کے چیئرمین زوہیب خان کے مطابق آن لائن ایپس کے ذریعے آمدن پر انحصار کرنے والوں کے نقصان کا مجموعی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔البتہ موجودہ مہنگائی کے دور میں وہ جن مشکلات سے گزر رہے ہیں انہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بزنس کمیونٹی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے 100 سے زائد افراد نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ موبائل ڈیٹا کی بندش سے اس وقت میں ساڑھے 12 کروڑ افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
’موبائل ڈیٹا کی بندش کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ہے‘
زوہیب خان کا کہنا ہے کہ کرونا کے بعد سے ’ورک فرام ہوم‘ کے لیے کئی آئی ٹی کمپنیوں نے اپنے ورکرز کو لیپ ٹاپ اور ٹیلی کام کمپنیوں کی انٹر نیٹ ڈیوائسز دی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ بجلی کی بندش کی صورت میں دفاتر میں جنریٹرز یا یو پی ایس کا انتظام ہوتا ہے لیکن گھروں پر اس وجہ سے کام متاثر نہ ہوں اسی لیے لیپ ٹاپس دیے گئے تھے۔ لیکن موبائل ڈیٹا متاثر ہونے سے یہ متبادل بھی بے سود ثابت ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بڑے شہروں میں فائبر انٹرنیٹ دستیاب ہے لیکن پاکستان کے کئی چھوٹے شہروں اور مضافاتی علاقوں میں کام کرنے والے ،فری لانسر ٹیلی کام کمپنیز کے انٹرنیٹ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے اگر اس پر انٹرنیٹ کی رسائی میں رکاوٹ آتی ہے تو اس کے اثرات کا دائرہ بہت پھیل جاتا ہے۔
اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ میں خلل سے آئی ٹی سیکٹر کے علاوہ ای کامرس اور آن لائن کاروبار کرنے والے درمیانے درجے کے بزنس بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی کا ہر شعبہ کسی نہ کسی طرح انٹر نیٹ سے منسلک ہو چکا ہے اس لیے اس میں خلل آنے سے معمولاتِ زندگی متاثر ہوتے ہیں۔
’معیار اور کارکردگی دونوں متاثر ہوتے ہیں‘
محمد علی کراچی میں ایک سافٹ ویئر کمپنی کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انٹر نیٹ پر صرف سوشل میڈیا تک رسائی متاثر نہیں بلکہ اس کی رفتار مجموعی طور پر متاثر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اب محض رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کا روزگار اس سے جڑا ہے وہیں آئی ٹی سیکٹر میں کام جاری رکھنے کے لیے اب یہ ہماری تیکنیکی ضرورت بھی ہے۔ اس لیے کنیکٹویٹی میں آنے والے مسائل سے ہمارا دہرا نقصان ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سادہ لفظوں میں کہیں تو سافٹ ویئرز یا ایپلی کیشنز کی ٹیسٹنگ کے لیے بھی ہمیں انٹر نیٹ درکار ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ہم ویڈیو کال یا میسجنگ کی کسی ایپ پر کام کررہے ہیں تو اس کی کارکردگی یا کسی خاص فیچر کی کارکردگی ٹیسٹ کرنے کے لیے انٹر نیٹ ہماری ضرورت ہے۔ اگر اس میں رکاوٹ آئے گی تو کام جاری رکھنا اور پراڈکٹ کا معیار دونوں متاثر ہوں گے۔
بیرونِ ملک سے چھٹیوں پر پاکستان آنے والے ایک اور سافٹ ویئر انجینئر احمد بلال کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ نے کام کے طور طریقوں کے ساتھ چھٹیوں کے تصور کو بھی بالکل بدل دیا ہے۔ اب ہم چھٹیوں پر آتے ہیں تو اس میں ڈسٹنس ورکنگ کے دن بھی شامل کرکے آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر سافٹ ویئر کمپنیز میں ‘ریموٹ سیشن‘ میں کام کیا جاتا ہے۔ یعنی ہم خود کہیں بھی ہوں لیکن لاگ ان ایک دو ر رکھے سسٹم کرتے ہیں اور اپنا سارا کام وہیں کرتے ہیں۔ اس لیے اگر انٹر نیٹ کی فراہمی متاثر ہو تو اس کا اثر براہِ راست ہمارے کام پر پڑتا ہے۔
محمد علی نے بتایا کہ ملکی حالات کی وجہ سے کئی سافٹ ویئر کمپنیز نے اپنے ورکرز کو ورک فور ہوم کی ہدایت جاری کی تھیں۔ انٹرنیٹ میں رکاوٹ کی وجہ سے کو آردینیشن میں مسائل کا سامنا ہے جس سے ورک فلو متاثر ہوتا ہے ۔
محمد علی اور احمد بلال کا کہنا ہے کہ کارکردگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ حالات کی خرابی کے ساتھ انٹرنیٹ کی بندش سے ملک کا امیج متاثر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک ان کے کولیگز یا کلائنٹس کو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں جیسے خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔
انٹرنیٹ کی بندش کو دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے؟
انٹرنیٹ سینسر شپ اور حقوق پر کام کرنے والے ادارے ’بولو بھی‘ کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندش بنیادی شہری حقوق کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 18 اور 19 میں آزادیٔ اظہار، نقل و حرکت کی آزادی اور معلومات تک رسائی کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش کو دنیا میں کسی بھی میں استحکام اور شہری آزادیوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے جب کسی ملک میں انٹرنیٹ بند ہوتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر اس کا امیج متاثر ہوتا ہے۔
اسامہ خلجی نے کہا کہ استحکام اور شہری آزادیوں کا تعلق ملک میں آنے والی سرمایہ کاری سے ہوتا ہے اور پاکستان میں ماضی میں بھی انٹرنیٹ پر قدغن لگانے کی وجہ سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے۔
سیکیورٹی کے لیے کتنا ضروری ؟
پاشا کے چیئر مین زوہیب خان کا کہنا ہے کہ ہمیں اندازہ ہے کہ قیامِ امن کے لیے کئی مرتبہ غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومت نے قومی سلامتی کے تحفظ کو انٹرنیٹ کی بندش کے اقدام کا محرک بتایا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اسے پورے ملک میں یکسر بند کردینا دانش مندانہ اقدام نہیں۔ اس کے لیے ایسے لوگوں کو وائٹ لسٹ کیاجاسکتا ہے جن کا روزگار اس کام سے جڑا ہے ۔
بولو بھی کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے نزدیک انٹرنیٹ کی بندش کے لیے سیکیورٹی صورتِ حال کو وجہ بتانا ایک کمزور دلیل ہے۔ ان کے بقول پر تشدد احتجاج اس دور میں بھی ہوتے تھے جب انٹرنیٹ نہیں تھا۔ حکومت کو اس کے لیے دیگر طریقے اختیار کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ اگر استحکام لانے کے لیے بند کیا گیا تھا تو اس کا اثر اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اس کی بندش سے دنیا بھر میں یہ پیغام جارہا ہے کہ پاکستان میں عدم استحکام ہے۔
’معیشت میں رکاوٹ بننے والی پابندیوں کے حق میں نہیں‘
وائس آف امریکہ نے جب انٹرنیٹ کی بندش کے معاملے پر مؤقف کے لیے وفاقی وزیرِ آئی ٹی امین الحق سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ غیر معمولی حالات کی وجہ سے موبائل براڈ بینڈ کو فور جی سے ٹو جی کیا گیا ہے اور یہ فیصلہ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے آئی ٹی کی وزارت کے تحت نہیں آتی بلکہ یہ دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز کی طرح کابینہ سیکریٹریٹ کے تحت آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارتِ آئی ٹی نے ہمیشہ انٹر نیٹ پر قدغن یا ایپلی کیشنز وغیرہ کی بندش کی مخالفت کی ہے۔ کسی بھی ایسی پابندی کا حامی نہیں جو معاشی ترقی میں رکاوٹ ہو۔ ہمیں احساس ہے کہ ایسی پابندیوں سے معیشت کتنی متاثر ہوتی ہے۔
امین الحق نے کہا کہ گزشتہ حکومت میں بھی انہوں نے بطور آئی ٹی وزیر ٹک ٹاک اور پب جی کی بندش کی مخالفت کی تھی اور حال ہی میں جب ’وکی پیڈیا‘ کو بند کیا گیا ہم نے اسے فوری بحال کرایا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ قانون اور وزیرِ اطلاعات کے ساتھ مل کر ایک میکنزم بنایا ہے کہ جس میں کسی بھی ایسی پابندی سے قبل منظوری لینا ضروری قرار دیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر آئی ٹی کا کہنا تھا کہ وہ متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں اور ایسے علاقوں میں انٹرنیٹ کی مکمل بحالی کے لیے کوشاں ہیں جہاں امن و امان کی صورتِ حال قابو میں ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف سافٹ ویئر ہاوسز (پاشا) اور سول سوسائٹی نے وزیرِ اعظم ، وزیر آئی ٹی اور پی ٹی اے سے انٹرنیٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔