رسائی کے لنکس

تنازع بحیرہ جنوبی چین، بین الاقوامی عدالت کا فیصلہ جولائی میں متوقع


فلپائن کے طلبا چین کی طرف سے متنازع بحری علاقے میں بحری جہاز بھیجنے پر منیلا میں احتجاج کر رہے ہیں۔
فلپائن کے طلبا چین کی طرف سے متنازع بحری علاقے میں بحری جہاز بھیجنے پر منیلا میں احتجاج کر رہے ہیں۔

چین نے اس مقدمے کی سماعت میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس عدالت کے کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرے گا۔

ایک عالمی عدالت اگلے ماہ فلپائن کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ کے دعوؤں سے متعلق ایک کیس کا فیصلہ کرے گی۔

ہیگ میں قائم پرمننٹ کورٹ آف آربٹریشن یعنی ثالثی کی عدالت نے بدھ کو کہا کہ وہ 12 جولائی کو اپنا فیصلہ سنائے گی مگر اس نے اس تنازع کے پرامن تصفیے پر زور دیا ہے۔

فلپائن نے بحیرہ جنوبی چین کے 90 فیصد حصے پر چین کے تاریخی دعوے سے متعلق 2013 میں مقدمہ درج کرایا تھا۔ یہ دنیا کے مصروف ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کی متعدد ریاستیں اس بحیرہ کے پانیوں کی دعویدار ہیں اور اس تنازع پر مسلح کارروائی کا خدشہ پیدا ہوا ہے جس سے عالمی تجارت میں خلل پڑ سکتا ہے۔

چین نے اس مقدمے کی سماعت میں شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس عدالت کے کسی فیصلے پر عملدرآمد نہیں کرے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے کہا کہ ’’علاقے اور سمندری حدود کے تعین کے معاملے پر چین کسی بھی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کرے گا اور نا اس تنازع کا زبردستی حل قبول کرے گا۔‘‘

فلپائن کے سبکدوش ہونے والے صدر بینگنو اکینو نے کہا تھا کہ ان کی حکومت نے چین کو عالمی عدالت میں لے جانے کا اس وقت فیصلہ کیا جب اس ایشیائی طاقت نے ایک متنازع بحری علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔

بعد میں چین دونوں ملکوں کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے ایک معاہدے سے منحرف ہو گیا جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دونوں ممالک ایک ساتھ ماہی گیری کے علاقے سے اپنی کشتیاں واپس بلا لیں گے۔

بحیرہ جنوبی چین کے علاقوں پر فلپائن اور چین کے علاوہ، ویتنام، تائیوان، ملائیشیا اور برونائی ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔

واشنگٹن نے اس تنازع میں کسی فریق کی حمایت نہیں کی مگر اس کا مؤقف ہے کہ تنازعات کو پرامن طور پر حل کرنا امریکہ کے قومی مفاد میں ہے اور وہاں بحری نقل و حمل اور فضائی حدود سے گزرنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG