عالمی بینک نے پاکستان اور بھارت کو سندھ طاس معاہدے سے ہٹ کر اپنے اپنے طور پر متبادل ذرائع سے آبی تنازع حل کرنے کی کوششوں کو روکتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس طرح یہ معاہدہ غیر فعال ہو جائے گا۔
دونوں ملکوں کے درمیان آبی تنازع کے معاملے پر بھارت نے غیر جانبدار مبصر جب کہ پاکستان نے چیئرمین عالمی ثالثی عدالت کے تقرر کی درخواست کر رکھی ہے۔
ایک بیان میں عالمی بینک کا کہنا تھا کہ اگر آبی تنازع سندھ طاس معاہدے سے ہٹ کر طے کیا گیا تو یہ معاہدہ عملاً غیر موثر ہو جائے گا۔
یہ معاہدہ 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا جس میں دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے باہمی اصول طے کرتے ہوئے مشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی بھارت جب کہ مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی پاکستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
لیکن ستمبر سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان تعلقات میں در آئی کشیدگی کے بعد سے بھارت مختلف مواقع پر اس معاہدے کو منسوخ اور پاکستان کے لیے پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا آیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1965ء اور 1971ء میں دونوں ملکوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں کے باوجود بھی یہ معاہدہ برقرار رہا تھا۔
عالمی بینک نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ یہ کامیاب ترین بین الااقوامی معاہدوں میں سے ایک ہے جو کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور تنازعات کے باوجود برقرار رہا۔
بیان میں بینک کے صدر جم یانگ کنگ کے حوالے سے کہا گیا کہ دونوں ملکوں کے لیے موقع ہے کہ وہ معاملے کو معاہدے کی روح کے مطابق احسن طریقے سے حل کریں اور انھیں امید ہے کہ پاکستان اور بھارت یہ معاملہ آئندہ جنوری کے اواخر تک طے کر لیں گے۔
بھارت متنازع علاقے کشمیر میں کشن گنگا دریا پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے اور پاکستان کا اعتراض ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے اس کے لیے پانی کے بہاؤ میں فرق پڑے گا جو کہ خشک سالی کے علاوہ دریائے نیلم پر تیار کیے جانے والے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی استعداد بھی متاثر کرنے کا سبب بنے گا۔
دریائے نیلم بھارتی کشمیر سے نکلتا ہے جہاں اسے کشن گنگا کہا جاتا ہے اور اس کا پانی دریائے جہلم میں آکر ملتا ہے۔
بھارت دریائے چناب پر بھی ایک پاور پراجیکٹ تیار کر رہا ہے اور پاکستان اسے بھی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔
دنوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں فی الحال کمی کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور دونوں جانب سے ہی آئے روز تلخ بیانات میں سامنے آرہے ہیں۔
منگل کو ہی اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ بھارتی قیادت کی طرف سے "غیر ذمہ دارانہ بیانات" خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔
ان کے بقول موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لیے تیار رہے۔
تسنیم اسلم نے ایک بار پھر پاکستان کے اس موقف کو دہرایا کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہاں ہے۔
بھارت کا موقف ہے کہ وہ پاکستان سے اسی صورت بات چیت کرے گا جب وہ دہشت گردوں کی مبینہ حمایت ترک کرے گا۔ اسلام آباد ایسے بھارتی دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔