انڈونیشیا نے سعودی عرب کی ایک عدالت کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کےایک باشندے پر جسمانی تشدد کے مجرم کو دی جانے والی سزا بہت نرم ہے۔
انڈونیشیا کے وزیر خارجہ مارٹی ناتالیگوا نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے ان کا خیال ہے کہ انڈونیشیا کی 23سالہ گھریلو ملازمہ سمیاتی بنتی سلان مصطپیٰ کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کاسرکاری وکیل مدینہ کی عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گا۔ عدالت نے سعودی مجرم ضنوبہ فاروق اص شواف کو انسانی سمگلنگ کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی ۔ سعودی عرب میں جسمانی تشدد کی نوعیت کے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا پندرہ سال قید ہے۔
گھریلو ملازمہ سمیاتی پرنومبر میں اس کی مالکن ایک سعودی خاتون نے شدیدجسمانی تشدد کیا تھا جس کے بعد اسےہسپتال داخل کرانا پڑا۔سعودی خاتون نے اس کے سر پر گرم استری سے تشدد کیا۔ تشدد سے اس کے چہرے پر بھی کئی زخم آئے۔ اس ماہ کے شروع میں ملازمہ ایک عدالت میں پیش ہوئی اور تشدد کے نشانات جج کو دکھائے۔
سعودی عرب نے اس واقعہ پر انڈونیشیا سے معافی مانگی ہے ۔ مگر انڈونیشیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایشیائی ملازموں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
نیویارک میں ہیومن رائٹس واچ کے رسرچر کرسٹوفر ولکی کہتےہیں کہ سعودی عدالت کی جانب سے کسی بھی تارک وطن پر جسمانی تشدد کےجرم میں سزا دینا سعودی عرب میں پہلا واقعہ ہے۔‘‘یہ صحیح سمت پہلا قدم ہے۔’’ وہ کہتے ہیں کہ عالمی سطع پر توجہ ملنے کی وجہ سے سعودی حکام کو سعودی خاتون پر مقدمہ چلانا پڑا۔
سعودی عرب میں نومبرمیں ہی ایک اور واقعہ میں انڈونیشیا کی ایک گھریلو ملازمہ کی لاش کوڑے کی ڈھیر سے ملی ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس کے خیا ل میں یہ واقعات عرب اور خلیجی ممالک میں گھریلو ملازموں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی چند مثالیں ہیں۔ ایمنسٹی نے سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملکوں میں سے اس صورتحال کو ختم کریں جہاں ملازمت فراہم کرنے والے بغیر سزا کے خوف کے گھریلوملازموں پر زیادتی کرتے ہیں۔