رسائی کے لنکس

کیا بھارتی سپریم کورٹ سوچ کو بدل سکتی ہے؟


پانچ ججوں پر مشتمل بنچ میں سابری مالہ مندر میں خواتین کے داخلے سے پابندی ہٹانے کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے والی اکلوتی خاتون جج اندو ملہوترا کا کہنا تھا کہ یہ پابندی مذہبی روایات کا حصہ ہے، جسے ختم کرنا ٹھیک نہیں۔

جنوبی بھارت کے صوبے کیرالہ میں برسوں پرانی ایک روایت سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے اس وقت ٹوٹ گئی، جب گزشتہ ہفتے عدالت نے دس سے پچاس سال کی عورتوں کے کیرالہ کے سابری مالہ مندرکے اندر جانے پر لگی پابندی ہٹا دی۔

بھارتی سپریم کورٹ نے پابندی کو خواتین کے خلاف امتیازی رویہ قرار دیتے ہوئے بھارتی آئین میں ملنے والے حقوق کے منافی قرار دیا۔

پانچ ججوں پر مشتمل بنچ میں اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے والی اکلوتی خاتون جج اندو ملہوترا کا کہنا تھا کہ یہ پابندی مذہبی روایات کا حصہ ہے، جسے ختم کرنا مناسب نہیں۔

بہت سی خواتین، جج اندو ملہوترا کی رائے سے اتفاق کرتی ہیں۔ جیسا کہ کیرالہ سکول کی ریٹائرڈ پرنسپل تھنکن نائر کہتی ہیں کہ ہم اپنی روایات کی پیروی کرتے ہیں، انہیں ایسے ہی رہنے دیا جانا چاہیئے۔

دہلی یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی اسسٹنٹ پروفیسر انوجا اگروال کہتی ہیں کہ قانونی فیصلوں کے بعد بھی لوگوں کی سوچ بدلنے میں وقت لگتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ عورتیں مندر جائیں گی۔ دوسری عورتیں انہیں دیکھیں گی۔۔۔اسی کا اثر ہو گا‘۔

اس سے پہلے ایک اور فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے انڈین پینل کوڈ کی دفعہ چار سوستانوے کو ختم کر دیا ہے۔ اس کے تحت کسی شادی شدہ آدمی کے کسی دوسرے کی بیوی کے ساتھ رشتہ قائم کرنا جرم تھا۔ لیکن وہ تعلقات جرم نہیں تھے، جو شوہر کی مرضی سے بنائے گئے، یعنی بیوی کو شوہر کی جائیداد یا ملکیت مانا جاتا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ کی وکیل پریا ہنگو رانی کہتی ہیں کہ ایڈلٹری یعنی بغیر شادی کے رشتہ استوار کرنے کو جرم قرار دینے سے انکار شادی کے ادارے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جو ڈر تھا، جو ذمہ داری تھی، وہ ختم ہو گئی ہے۔ اب یہ رویہ ہو گا کہ افئیر چل رہا ہے،تو چلنے دو، آپ نے ساتھ رہنا ہے تو رہو نہیں تو طلاق یا علیحدگی لے لو ۔

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی، سنیتا دھر، اسے عورتوں کے حق میں دیا گیا فیصلہ قرار دیتی ہیں۔ وہ نہیں سمجھتیں کہ یہ فیصلہ شادی کے ادارے کو کمزور کرے گا۔

ان کے بقول، اس کا تعلق شادی کے بندھن میں بندھے عورت اور مرد کے رشتے میں عدم برابری کو ختم کرنے سے ہے۔ “اس سے ہمارے برابری کے حق کا دفاع کیا گیا ہے “۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف قانونی فیصلوں سے کسی معاشرے میں تبدیلی نہیں آ سکتی، لیکن ان معاملوں پر شروع ہونے والی بحث لوگوں، خصوصاً خواتین کو اپنے حقوق کے بارے میں نئے انداز سے سوچنے پر ضرور مجبور کرے گی۔

دہلی سے رتول جوشی کی آڈیو رپورٹ یہاں سنیئے۔

XS
SM
MD
LG