بھارت کی سپریم کورٹ نے ملک کے انتہائی پیچیدہ ایودھیا تنازع کو حل کرنے کے لیے اپنی نگرانی میں ایک ثالث کمیٹی تشکیل دی ہے اور کہا ہے کہ مسئلے کو بات چیت سے حل کیا جائے۔
چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعے کو ایودھیا تنازع کے حل کے لیے ثالثی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا۔
کمیٹی کے سربراہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج ایف ایم خلیف اللہ ہوں گے جبکہ 'آرٹ آف لیونگ' فاؤنڈیشن کے سربراہ اور معروف ہندو روحانی گرو شری شری روی شنکر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سری رام پنچو اس کے اراکین میں شامل ہوں گے۔
عدالت نے کمیٹی کو مزید ارکان کی شمولیت کی اجازت بھی دی ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق ثالثی کا عمل فیض آباد میں ہوگا اور ایک ہفتے کے اندر شروع ہو جائے گا۔ کمیٹی کو چار ہفتے میں پہلی پیش رفت رپورٹ اور آٹھ ہفتے میں حتمی رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
عدالت نے رپورٹ کو مکمل طور پر خفیہ رکھنے اور میڈیا پر اس کی رپورٹنگ پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
عدالت عظمیٰ دو برس سے اس معاملے کو بات چیت سے حل کرنے کی بات کرتی آ رہی تھی۔
دو روز قبل عدالت نے اس معاملے میں پھر ثالثی کی بات کی تھی جس کو ہندو فریقوں میں سے 'نرموہی اکھاڑہ' کے علاوہ تمام فریقوں نے مسترد کر دیا تھا۔ تاہم تنازع کے مسلم فریقوں نے اس تجویز کی حمایت کی تھی۔
'نرموہی اکھاڑہ' ایودھیا کے متعدد مندروں کے انتظام و انصرام سے متعلق ایک تنظیم ہے جو اس معاملے میں ایک فریق ہے۔
شری شری روی شنکر اس معاملے پر پہلے بھی ثالثی کی کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن کئی ہندو فریقوں نے جن میں وشو ہندو پریشد بھی شامل ہے، ان کی مخالفت کی ہے۔
پہلے ہندو مہا سبھا نے بھی کمیٹی میں روی شنکر کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا مگر اب اس کے صدر سوامی چکرپانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کی حمایت کی ہے اور بات چیت کے ذریعے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کی اپیل کی ہے۔
سوامی چکرپانی نے الزام لگایا کہ وشو ہندو پریشد کو اس تنازع کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اس پر سیاست کرتی رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ وشو ہندو پریشد کے رہنماؤں نے رام مندر کے نام پر بہت چندہ جمع کر رکھا ہے وہ اس کا حساب دینے سے ڈرتے ہیں اور اسی لیے ان کے بقول وہ عدالت کی جانب سے ثالثی کمیٹی بنانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
سوامی چکر پانی نے کہا کہ بھارت پر پانچ سال سے بی جے پی کی حکومت ہے لیکن رام مندر کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
شری روی شنکر پر اعتراضات
کمیٹی میں شامل روی شنکر اس سے قبل مسلمانوں سے اپیل کر چکے ہیں کہ بابری مسجد کی جگہ کو غیر مشروط طور پر ہندوؤں کے حوالے کر دیا جائے لیکن مسلمانوں نے ان کی یہ اپیل مسترد کردی تھی۔
بعض مسلم شخصیات نے بھی کمیٹی میں روی شنکر کی شمولیت کی مخالفت کی ہے۔ ان میں دہلی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری اور ایک مسلم سیاسی جماعت 'ایس ڈی پی آئی' کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی شامل ہیں۔
احمد بخاری کا کہنا ہے کہ روی شنکر بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کو دینے کی وکالت کرتے رہے ہیں اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
تسلیم رحمانی نے عدالتی فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ روی شنکر کا وہی مؤقف ہے جو وشو ہندو پریشد کا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ روی شنکر کو ثالثی کمیٹی میں شامل نہ کیا جائے۔
تسلیم رحمانی نے بھارت میں مسلمانوں کی معروف درس گاہ 'ندوة العلما' لکھنو کے مولانا رابع حسنی ندوی جیسے کسی بڑے اور قابلِ قبول عالمِ دین کی ثالثی کمیٹی میں شمولیت کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
'ثالثی کی بنیاد عقیدہ نہیں ہونا چاہیے'
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر ظفریاب جیلانی نے کہا ہے کہ وہ ثالثی کے عمل میں تعاون کریں گے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن اور ماضی میں بات چیت میں شامل رہنے والے کمال فاروقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت کی تشکیل کردہ کمیٹی پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہیں گے۔ اس نے بہت سے معاملات پر غور کرنے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
انھوں نے روی شنکر کے بارے میں کہا کہ ان کا موقف بہت واضح ہے۔ انھوں نے اس سے قبل مسلم پرسنل لا بورڈ کو خط لکھ کر کہا تھا کہ مسلمانوں کو بابری مسجد کی جگہ سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ وہ ہمیشہ یہی بات کہتے رہے ہیں۔ انھوں نے تو یہاں تک لکھا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہاں شام جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک اور رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں نے پہلے بھی ثالثی سے اتفاق کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر یہ ثالثی سپریم کورٹ کی نگرانی میں اور اِن کیمرہ ہوتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ثالثی کی بنیاد متنازع زمین کا حقِ ملکیت ہونا چاہیے، اعتقاد اور آستھا نہیں جیسا کہ ہندو اسے آستھا کا معاملہ بتاتے ہیں۔
قاسم رسول الیاس نے کہا کہ عدالت کے حتمی فیصلے سے قبل اس متبادل پر بھی عمل کرکے دیکھ لینا چاہیے۔ اگر بات چیت سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو زیادہ بہتر ہے ورنہ عدالت کا فیصلہ آخری ہوگا۔
عدالت کی جانب سے ثالثی کمیٹی تشکیل دیے جانے کے بعد متعدد ہندو شخصیات نے متنازع زمین پر رام مندر کی تعمیر کی وکالت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی بھی فیصلہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
بابری مسجد یا رام مندر؟
سولہویں صدی میں تعمیر کی جانے والی بابری مسجد کے بارے میں ہندووں کا دعویٰ ہے کہ وہاں ان کے مذہبی رہنما رام جی پیدا ہوئے تھے اور پہلے وہاں مندر تھا جسے مسلمان حکمران ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے منہدم کرکے وہاں مسجد تعمیر کی تھی۔
مسلمان اس دعوے کی تردید اور اسے بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔
چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد کی اپیل پر مسجد کے نزدیک ہندوؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا جس نے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا تھا جس میں آج تک پوجا ہو رہی ہے۔
الہٰ آباد ہائی کورٹ نے 2010ء میں اس معاملے کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس نے دو حصے ہندوؤں کو اور ایک حصہ 'سنی سینٹرل وقف بورڈ' کو دے دیا تھا۔
لیکن تنازع کے تمام فریقوں نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا تھا اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں کل 14 درخواستیں دائر کی تھیں جن کی سماعت کے بعد جمعے کو عدالت نے ثالثی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ معاملہ حقِ ملکیت کا بھی ہے اور جذبات کا بھی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ زخموں پر مرہم رکھنے کا بھی۔