رسائی کے لنکس

کشمیری رہنماؤں کی برسی پر سرینگر میں غیر معمولی پابندیاں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پیر کو مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سری نگر میں ایک مرتبہ پھر غیر معمولی حفاظتی پابندیاں عائد کر کے لوگوں کی نقل و حرکت مسدود کردی۔ سری نگر کا پرانا حصہ ایک فوجی چھاؤنی کی طرح لگ رہا تھا جہاں سینکڑوں کی تعدار میں تعینات کئے گئے حفاظتی دستوں نے سڑکوں پر خار دار تار بچھا کر اور بکتر بند گاڑیاں کھڑی کر کے لوگوں کو شہر کی مرکزی عید گاہ علاقے میں واقع شہداء کے مزار پر جمع ہونے سے روکا۔

اس مزار میں سری نگر اور اس کے آس پاس بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ اٹھائیس برس سے جاری شورش کے دوران مارے گئے سرکردہ عسکری کمانڈر، سیاسی قائدین اور دوسرے درجنوں کشمیری دفن ہیں۔ ان میں معروف مذہبی اور سیاسی راہنما میرواعظ مولوی محمد فاروق اور تحریک مزاحمت کے ایک اور سرکردہ لیڈر عبد الغنی لون بھی شامل ہیں۔

میرواعظ محمد فاروق کو 1990 اور عبد الغنی لون کو 2002 میں آج ہی کے دن یعنی 21 مئی کو نامعلوم مسلح افراد نے قتل کیا تھا۔ بھارتی حکام نے ان دونوں واقعات کے لئے علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کو ذمہ دار قرار دیا تھا لیکن وہ تاحال ملزموں کی باضابطہ نشاندہی کرسکے ہیں اور نہ کسی کو سزا دی جا سکی ہے-

پیر کو اُن تقریباً ساٹھ شہریوں کی بھی برسی تھی جو میرواعظ محمد فاروق کے جنازے پر بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کی طرف سے کی گئی فائرنگ میں ہلاک ہوئے تھے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے پیر کو مزارِ شہداء پر ایک جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پولیس نے اتحاد میں شامل قائدین اور سرکردہ کارکنوں کو جن میں مرحوم میرواعظ کے صاحبزادے اور موجودہ میرواعظ محمد عمر فاروق بھی شامل ہیں احتیاطی حراست میں لے لیا یا پھر انہیں ان کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔ نیز وادئ کشمیر کے تعلیمی ادارے بند کر دئے گئے اور ریل سروسز معطل رکھی گئیں۔

میرواعظ نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’’نصف (سری نگر) شہر میں سخت کرفیو اور پابندیاں عائد کی گئی ہیں لیکن شہداء کی میراث کو آگے لے جانے کا عزم ہمارے دلوں میں گہرائی کے ساتھ رچا بسا ہے اور قبضے سے آزادی تک برقرار رہے گا‘‘۔

پولیس عہدیداروں نے بتایا کہ حفاظتی پابندیاں اور دوسرے احتیاطی اقدامات اس لئے اختیار کئے گئے ہیں تاکہ لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور امن و امان میں رخنہ نہ پڑے۔ وادئ کشمیر کے باقی ماندہ علاقوں میں پیر کو عام ہڑتال کی گئی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG