بھارت کی سپریم کورٹ نے سینئر صحافی ونود دُوا کے خلاف ملک سے غداری اور دیگر الزامات کے تحت دائر معاملے کو خارج کر دیا ہے۔ بھارت کی صحافی تنظیموں نے عدالتی حکم پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں آبزرویشن دی ہے کہ 1962 میں 'کیدار ناتھ سنگھ' معاملے میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہر صحافی کو غداری کے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔
عدالت نے ونود دوا کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں میڈیا کے خلاف یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ اگر ریاستی حکومتیں من پسند خبریں یا نشریات نہیں پاتیں تو وہ صحافیوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے ان پر مقدمات بنا دیتی ہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب حکومتوں پر محض تنقید کی وجہ سے ملک سے غداری کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر دیا جاتا تھا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایماندارانہ اور معقول تنقید ایک کمیونٹی کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔
یاد رہے کہ ریاست ہماچل پردیش سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما نے ونود دوا کے یو ٹیوب پروگرام میں وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ان کے خلاف ملک سے غداری اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔
ونود دوا کے خلاف چھ مئی 2020 کو شملہ کے کمار سین پولیس اسٹیشن میں یہ مقدمہ درج کرایا گیا تھا جسے ونود نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
صحافی نے عدالت سے گرفتار نہ کیے جانے کی استدعا کی تھی۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ نے ونود دوا کی اس درخواست کو مسترد کر دیا کہ دس سال کا تجربہ رکھنے والے کسی بھی صحافی کو اس وقت تک گرفتار نہ کیا جائے جب تک کہ ہائی کورٹ کے جج کی سربراہی میں قائم کمیٹی اس کی منظوری نہ دے دے۔
عدالت نے کہا کہ ایسا فیصلہ مقننہ کے دائرہ اختیار کو محدود کرنا ہوگا۔
البتہ سپریم کورٹ نے گزشتہ برس 20 جولائی کو ونود دوا کے خلاف انتظامیہ کو تاحکم ثانی کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں ہماچل پردیش کی پولیس کی جانب سے پوچھے گئے کسی بھی ضمنی سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔
ونود دوا کے وکیل وکاس سنگھ کے مطابق ان کے موکل کے خلاف جن دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اس کے تحت انہیں کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ ان کے بقول ونود نے ایک صحافی کی حیثیت سے کسی مذہب، نسل، زبان، علاقے، گروہ یا فرقے کے خلاف کچھ نہیں کہا۔
یاد رہے کہ ونود دوا اپنے یو ٹیوب پروگرام 'ونود دوا شو' میں مودی حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں جب کہ حکمراں جماعت کے رہنما یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ عوام مخالف پروگرام کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایک دوسرے معاملے پر سماعت کے دوران آبزرویشن دی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ ملک سے غداری کی دفعہ کی حدود کی تشریح کی جائے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی یہ تشریح ضروری ہے۔
عدالت عظمیٰ نے آندھرا پردیش کے دو تیلگو نیوز چینلز کے خلاف درج غداری کے معاملے میں انتظامیہ کو کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت اظہارِ رائے کی آزادی اور میڈیا کے حوالے سے ملک سے غداری کی دفعہ کا جائزہ لے گی۔
'عدالتی فیصلے سے بہت سے لوگوں کو اطمینان ہوا ہے'
سینئر تجزیہ کار شاہین نظر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صحافی ونود سے معتلق عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے اس سے امید کی ایک کرن روشن ہوئی ہے۔ ان کے بقول اس سے قبل عدالت عظمیٰ کے کئی فیصلوں سے مایوسی ہوئی تھی لیکن یہ فیصلہ مسرت کا باعث بنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص حکومت کے خلاف بات کرتا ہے تو بی جے پی کا کوئی رہنما یا کارکن اس کے خلاف مقدمہ کرا دیتا ہے۔ ونود دوا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ونود دوا ملک کے ایک بڑے صحافی ہیں جنہیں ملک میں بحیثیت صحافی ایک وقار حاصل ہے۔ ان کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت سے لوگوں کو اطمینان حاصل ہوا ہے۔
انہوں نے کیرالہ کے ایک صحافی صدیق کپن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ الہ آباد ہائی کورٹ کا رویہ ان کے معاملے میں مناسب رہا لیکن سپریم کورٹ سے انہیں تاحال کوئی رعایت نہیں ملے۔
یاد رہے کہ صدیق کپن کو گزشتہ برس اترپردیش کے ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور قتل کے کیس کی رپورٹنگ کے لیے جاتے وقت متھرا میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
شاہین نظر کے مطابق چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو حکومتی اقدامات پر تنقید کی صورت میں انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ ان معاملات کو بھی دیکھے۔
انہوں نے کہا کہ صرف صحافیوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کے کارکنوں، نئے شہریت قانون 'سی اے اے' مخالف مظاہروں اور کسانوں کی تحریک کے سلسلے میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ان کے خلاف مقدمات درج کرائے گئے۔
رواں برس جنوری میں کسان تحریک کی رپورٹنگ کی وجہ سے اترپردیش اور مدھیہ پردیش کی پولیس نے سینئر صحافیوں مرنال پانڈے، راج دیپ سردیسائی، ظفر آغا، پریش ناتھ، اننت ناتھ اور ونود جوزے کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ریاستی حکومتوں نے غداری، قومی سلامتی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون 'یو اے پی اے' کے تحت مخالفین کے خلاف کارروائی کی ہے جس کی وجہ سے ان کی ضمانتوں کی درخواستیں منظور نہیں ہو رہیں۔
صحافیوں کی تنظیموں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، پریس کلب آف انڈیا، انڈین وومین پریس کور، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور انڈین جرنلسٹس یونین کی جانب سے صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں پر بارہا احتجاج کیا گیا ہے اور پولیس کارروائیوں کی مذمت کی گئی ہے۔
ایڈیٹرز کی ایک عالمی تنظیم انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی) اور ایک دوسری تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے بھارت میں صحافیوں کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمات پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔
مذکورہ تنظیموں نے گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے نام ایک خط میں صحافیوں کے خلاف پولیس کی کارروائیوں کی مذمت کی تھی اور اس سلسلے میں صحافی صدیق کپن اور دیگر صحافیوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔