رسائی کے لنکس

کیرالہ کے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر 800 سالہ پابندی ہٹا دی گئی


سبری مالا مندر میں یاتروں کی پوجا (فائل)
سبری مالا مندر میں یاتروں کی پوجا (فائل)

سپریم کورٹ نے سماجی اصلاح کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے کیرالہ کے سبری مالا مندر کے دروازے تمام عمر کی خواتین کے لیے کھول دیے۔ اس مندر میں دس سال سے پچاس سال تک کی خواتین کے داخلے پر 800 برسوں سے پابندی عاید تھی۔

پانچ رکنی آئینی بینچ نے اس پابندی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، صنفی امتیاز پر مبنی اور دستور کی دفعات 14,15 اور 21 کے منافی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والے آئینی بینچ نے 1965 کے کیرالہ کے اس قانون کو بھی کالعدم کر دیا جو عورتوں کے مندر میں داخلے پر روک لگاتا تھا۔

مندر کے منتظمین کا کہنا تھا کہ چونکہ اس مندر کے دیوتا لارڈ ایپّا دائمی برہمچاری یعنی مجرد ہیں اس لیے مذکورہ عمر کی خواتین کو داخلے کی اجازت نہیں، کیونکہ یہ ماہواری کی عمر ہوتی ہے۔

عدالتی فیصلے کی رو سے، جسمانی بناوٹ کی بنیاد پر کسی کو مندر میں جا کر پوجا کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن وانی سبرامنین نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے فیصلے کا خیر مقدم کیا مگر یہ بھی کہا کہ کیا یہ فیصلہ نافذ ہو پوئے گا۔ انھوں نے کہا کہ سوال یہ ہے آیا سماج کا رویہ کیا ہوگا۔ اگر حواتین مندر میں جائیں گی تو کیا اس کے خلاف کوئی مزاحمت ہوگی۔

انھوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ایک سال قبل ایک خاتون ضلع مجسٹریٹ انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے مندر میں گئی تھیں جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ چونکہ یہ مندر کافی پرانا ہے اور اس کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے ان کو اندیشہ ہے کہ خواتین کو مندر میں جانے دیا جائے گا یا نہیں۔ تاہم، انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ فیصلہ بہت دور رس ہے اور سماج پر اس کے اثرات پڑیں گے۔

متعدد خواتین کارکنوں نے بھی فیصلے کو سراہا اور خیرمقدم کیا ہے۔

مذکورہ پابندی کو ’انڈین ینگ لائرس ایسو سی ایشن‘ نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ کیرالہ کی حکومت نے بھی مندر میں داخلے کی حمایت کی تھی۔

ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکرپانی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے فیصلے کو تاریخی قرار دیا اور اسے خواتین کو حقوق مرحمت کرنے والا بتایا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب خواتین مندر میں جائیں گی تو اس سے مختلف سطحوں پر پایا جانے والا امتیاز ختم ہوگا اور ہندو سناتن دھرم کے لیے ایک ایک اچھی بات ہوگی۔ تاہم، انھوں نے خواتین سے اپیل کی کہ وہ مندر کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لیے ماہواری کے دنوں میں مندر نہ جائیں۔

مندر کے پجاری اور پنڈالم شاہی خاندان نے جو کہ مندر کا متولی اور مذکورہ رسم سے وابستہ ہے، فیصلے کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ حتمی رائے فیصلہ پڑھنے کے بعد دی جائے گی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاملہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ آگے تک جائے گا،کیونکہ ہندووں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے کیرالہ کے ایک ہندو کارکن راہل ایشور نے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کی بات کہی اور کہا کہ موجودہ چیف جسٹس سبکدوش ہو رہے ہیں، آنے والے چیف جسٹس سے ہمیں امیدیں وابستہ ہیں۔

قدامت پسند ہندوؤں کی جانب سے فیصلے کی مخالفت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG