بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی مہم کے سلسلے میں آسام، تری پورہ، اروناچل پردیش اور آندھرا پردیش کا دورہ کیا جہاں انہیں زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔
آندھرا پردیش کے شہر گنٹور سمیت 13 اضلاع میں مودی کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ حکمراں تیلگو دیشم، کانگریس، بائیں بازو اور طلبہ تنظیموں نے آندھرا پردیش کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے کے مطالبے کے تحت احتجاجی مظاہرے کیے۔
متعدد مقامات پر ”مودی واپس جاؤ“ اور ”مودی نو اینٹری“ و دیگر پوسٹرز آویزاں تھے جبکہ سیاہ پرچم بھی لہرائے گئے۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتیں اس مطالبے کی حمایت کر رہی ہیں۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ حکومت نے ریاست کو خصوصی ریاست کے درجے سے کہیں زیادہ دیا ہے۔
اتوار کے روز ان کے دورے کے موقع پر وزیر اعلیٰ چندر بابو نائیڈو نے کہا کہ مودی نے 2014 میں جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے لہٰذا انھیں ریاست میں آنے کا کوئی حق نہیں ۔
ادھر وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ریلی سے خطاب میں چندر بابو نائیدو کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ انھوں نے اپنے وعدوں سے یو ٹرن لیا ہے۔ مودی نے نائیڈو کو ”پشت میں خنجر گھونپنے والا“ اور ”وفاداری بدلنے والا“ قرار دیا۔
نائیڈو مارچ 2018 میں حکمراں محاذ این ڈی اے سے الگ ہو گئے تھے۔ اب وہ کانگریس کے ہمراہ مودی کے خلاف اپوزیشن اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک سینئر تجزیہ کار انیل چمڑیا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مودی کے خلاف مظاہروں سے واضح ہوتا ہے کہ عوام ایک بار پھر جمہوریت کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق 2014 میں جو فضا بنی تھی او رجو جنون پیدا کیا گیا تھا وہ اب ختم ہو گیا ہے۔ حکومت کے حوالے سے عوام کا تجربہ اچھا نہیں رہا۔ معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور پورے ملک میں بد امنی رہی لہٰذا اب رائے دہندگان ایک بار پھر جمہوریت کی طرف واپس آرہے ہیں۔
ایک روز قبل آسام، تری پورہ اور اروناچل پردیش میں بھی مودی کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا اور سیاہ پرچم لہرائے گئے تھے۔ بعض طلبہ نے نیم عریاں ہو کر مظاہرہ بھی کیا۔
شمال مشرقی ریاستوں میں حکومت کے متنازعہ شہریت بل کے خلاف کافی دنوں سے احتجاجی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ بل کے مطابق پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندووں، سکھوں، جینیوں، بودھوں اور پارسیوں کو بھارت کی شہریت دی جائے گی۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس سے خطے کی آبادی اور ثقافت متاثر ہوگی جبکہ حکومت اس سے انکار کرتی ہے او رکہتی ہے کہ مذکورہ ملکوں کی اقلیتوں کو شہری حقوق دینا اس کی ذمے داری ہے۔
دریں اثنا چین نے اروناچل پردیش کے دورہ مودی کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اس خطے میں ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے سرحدی تنازعہ اور پیچیدہ ہو جائے۔
چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے جبکہ بھارت اسے اپنا لازمی حصہ بتاتا ہے۔ چین کے اعتراض کو بھارت نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کے رہنما ملک کے دوسرے حصوں کی مانند اس حصے کا بھی وقتاً فوقتاً دورہ کرتے رہتے ہیں۔