بھارتی سکیورٹی فورسز نے سری نگر کے ایک ہوٹل میں محصور دو مسلح عسکریت پسندوں کوہلاک کر نے کا دعویٰ کیا ہے جس کے بعد 22 گھنٹےتک جاری رہنے والا ےیہ تصادم جمعرات کو ختم ہوگیا ہے۔
بھارتی حکام کی طرف سے عسکریت پسندو ں کے خلاف کارروائی کے خاتمے کے اعلان سے آدھا گھنٹہ قبل ہوٹل کو آگ لگ گئی جسے فائر بریگیڈ کا عملہ بجھانے میں مصروف تھا۔
پولیس کے سربراہ کلدیپ خدا نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے عمارت کی آخری منزل کو محفوظ بنانے کے بعد جب جمعرات کی صبح مزید پیش رفت کی تو ایک عسکریت پسند کے ساتھ ان کا آمنا سامنا ہو گیا جسے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا گیا۔
انھوں نے بتایا کے اس دوران دوسرے عسکریت پسند نے فرار ہونے کی کوشش میں عمارت کو آگ لگا دی لیکن اسے بھی گولی مار دی گئی۔ پولیس سربراہ نے کہا کہ ایک پولیس اہلکار اور ہوٹل کے عملے کا ایک رکن اس واقعے میں ہلاک جبکہ درجن سے زائد افراد ا زخمی ہوگئے۔
یہ واقعہ بدھ کی سہ پہر اس وقت پیش آیا جب دو مسلح عسکریت پسند سری نگر کے مرکزی لال چوک میں ایک سکیورٹی پوسٹ پر دستی بم سے دھماکا کرنے کے بعد خودکارہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے قریب موجود نیو پنچاب ہوٹل میں داخل ہو گئے تھے۔
بھارتی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے فوری طور پر ہوٹل کو اپنے گھیرے میں لے کر اور وہاں موجود عام شہریوں کو محفوظ طور پر نکالنے کے بعد عسکریت پسندوں کے ساتھ وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ شروع کردیا۔
دو کشمیری تنظیموں جمعیت المجاہدین اور حرکت الانصار نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں تین جنگجوؤں نے حصہ لیا اور اس کا مقصد بھارتی حکام کو یہ پیغام دینا تھا کہ ” کشمیر میں آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی“۔
مقامی دکانداروں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ انھوں نے ایک تیسرے عسکریت پسند کو موقع واردات سے فرار ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
بھارتی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک حملہ آور پاکستانی شہری تھا جبکہ دوسرے کا تعلق کشمیر کے شمال مغربی قصبے سوپور سے تھا۔ تاہم آزاد ذرائع سے پولیس کے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔