رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کی کامیابی


India Kashmir Election
India Kashmir Election
  • تین مراحل میں کرائے گئے ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو 42 اور کانگریس کو چھ نشستیں ملی ہیں
  • بی جے پی کو جموں خطے کی 43 نشستوں میں سے 29 پر کامیابی ملی ہے لیکن یہ مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی
  • نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں
  • سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت صرف تین نشستوں پر کامیاب ہو سکی ہے
  • انتخاب میں حصہ لینے والے علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا
  • نئی منتخب حکومت کے قیام سے نئی دہلی کے براہِ راست راج کا خاتمہ ہو جائے گا لیکن اب بھی اختیارات کا محور مرکزی حکومت کا مقرر کردہ گورنر ہے

سرینگر__بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 10 سال کے طویل عرصے کے بعد کرائے گئے اسمبلی انتخابات میں علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس اور کانگریس پارٹی کے اتحاد نے بھاری مینڈیٹ سے کامیابی حاصل کی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت سازی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے اتحاد کے متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ ان کے والد اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ پہلے ہی انہیں وزیرِ اعلیٰ بنانے کا اعلان کرچکے ہیں۔

عمر عبداللہ نے انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے فوری بعد بھارتی وزیرِ اعظم سے اپیل کی کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے میں تاخیر نہ کریں۔

سماجی ویب سائٹ 'ایکس' کے ذریعے وزیرِ اعظم کی طرف سے نیشنل کانفرنس کو انتخابات میں بھاری کامیابی ملنے پر دیے گیے مبارک باد کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے امید ظاہر کی کہ وفاقیت کی حقیقی روح کے عین مطابق جموں و کشمیر کی نئی حکومت اور وفاق کے درمیان تعلقات مثبت اور تعمیری نوعیت کے ہوں گے۔

عمر عبداللہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے ممکنہ طور پر اتحاد کے متفقہ امیدوار ہوں گے۔
عمر عبداللہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے ممکنہ طور پر اتحاد کے متفقہ امیدوار ہوں گے۔

جموں و کشمیر اسمبلی کے آخری انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ جون 2018 میں علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد ریاست کے گورنر نے اسمبلی تحلیل کردی تھی اور اسمبلی چھ سال کی مقررہ مدت پوری نہیں کرپائی تھی۔

جموں و کشمیر اسمبلی کی نسشتوں کی کُل تعداد 119 ہے جن میں سے 90 پر براہِ راست ووٹنگ ہوئی تھی۔ پانچ پر نامزدگیاں ہوں گی جب کہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے مختص ہیں۔

اسمبلی کی 90 عام نشستوں کے لیے 900 سے زائد امیدوار میدان میں تھے۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعلان کے مطابق تین مراحل میں کرائے گئے ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو 42 اور کانگریس کو چھ نشستیں ملی ہیں۔

ان انتخابات میں انفرادی حیثیت سے کانگریس کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔

کانگریس نے نیشنل کانفرنس کے ساتھ کی گئی پری پول سیٹ شیئرنگ کے تحت 32 نشستوں کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے صرف چھ کامیاب ہوئے ہیں۔

جموں میں کانگریس کو صرف ایک سیٹ ملی ہے اور وادیٔ کشمیر کے پانچ حلقوں میں اس کے امیدواروں کی کامیابی کو کانگریس کی اپنی کوشش سے زیادہ نیشنل کانفرنس کی حمایت کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔

جموں میں بی جے پی کی کامیابی

نئی دہلی میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں خطے کے ہندو اکثریتی علاقوں میں میدان مار لیا ہے۔ البتہ بی جے پی کی جموں و کشمیر شاخ کے صدر رویندر رینہ نشست ہار گئے ہیں۔

بی جے پی کو جموں خطے کی 43 نشستوں میں سے 29 پر کامیابی ملی ہے لیکن یہ مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی اور یہاں اس کے بیش تر امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئی ہیں۔

وادی میں جن آزار امیدواروں کو بی جے پی کی علانیہ یا غیر علانیہ حمایت حاصل تھی وہ بھی بری طرح ہار گئے ہیں۔

اس طرح بی جے پی کا مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں پہلی بار کسی اتحاد کے بغیر حکومت بنانے کا خواب پورا نہیں ہو سکا ہے۔

بی جے پی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ان انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر جموں و کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جموں خطے سے تعلق رکھنے والا ایک ہندو وزیرِ اعلیٰ بنائے گی۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جموں میں اپنی انتخابی مہم کے آخری پڑاؤ کے دوران ووٹروں کے سامنے یہی ہدف رکھا تھا اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ اس موقعےکو ہرگز نہ گنوائیں۔

بی جے پی حکومت بنانے میں تو کامیاب نہیں ہوئی تاہم ان انتخابات میں اس کی نشستوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں بی جے پی نے اس بار تقریباً تین فی صد زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ سال 2014 کے انتخابات میں بی جے پی کو 25 نشستیں ملی تھیں جن میں اس مرتبہ چار کا اضافہ ہوا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ داخلہ امت شاہ نے کشمیر کےا نتخابات میں بی جے پی کی کارکردگی کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

تاہم کئی کشمیری سیاسی رہنما انتخابی نتائج کو نئی دہلی کے پانچ اگست 2019 اور اس کے بعد کیے گئے اقدامات کے خلاف ریفرنڈم قرار دے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ سمیت کئی رہنماؤں نے توقع ظاہر کی ہے کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر میں اس کے مقرر کردہ لیفٹننٹ گورنر عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں گے۔

منتخب حکومت کتنی با اختیار ہوگی؟

اگرچہ نئی منتخب حکومت کے قیام سے جموں و کشمیر پر گزشتہ چھ برس سے جاری نئی دہلی کے براہِ راست راج کا خاتمہ ہو جائے گا۔تاہم جموں و کشمیر چوں کہ تاحال وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ ہے اس لیے مرکز کا مقرر کردہ لیفٹننٹ گورنر طاقت اور اختیارات کا محور ہے۔

بھارتی کشمیر میں الیکشن: کیا علیحدگی پسندوں کا مؤقف بدل رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:40 0:00

بھارتی آئین کے تحت ریاست میں گورنر اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقے یا یونین ٹریٹری میں لیفٹننٹ گورنر ہوتا ہے جس کا تقّرر بھارتی صدر وفاقی حکومت کی سفارش پر کرتا ہے۔

بھارت کے آئین کے مطابق ریاستوں میں گورنر کی حیثیت سربراہِ ریاست کی ہوتی ہے جب کہ وزیرِ اعلیٰ کو انتظامی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس یونین ٹریٹری میں وزیرِ اعلیٰ کے مقابلے میں کئی امور پر لیفٹننٹ گورنر کو حاصل اختیارات زیادہ ہوتے ہیں۔

بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر ریاست کی آئینی نیم خود مختاری ختم کردی تھی اور اس کے ساتھ ہی اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنادیا تھا۔ یہ علاقے یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔

گزشتہ پانچ برس کے دوران وفاقی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے کئی قوانین میں ترمیم کی اور متعدد ایسے نئے قوانین متعارف کرائے جن کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے اختیارات کم ہوتے گئے۔

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے اعلان سے چند ہفتے پہلے بھی اس کے لیفٹننٹ گورنر کے آئینی اور انتظامی اختیارات میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا جس کے لیے جموں و کشمیر ٹرانسزکشن آف بزنس رولز میں ایک ترمیم کی گئی تھی جسے صدر نے منظور کردیا تھا۔

اس ترمیم اور وفاقی حکومت کی طرف سے حالیہ برسوں میں کیے گئے دیگر اقدامات کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ، اس کی سربراہی میں وزارتی کونسل اوراسمبلی کے اختیارات میں نمایاں کمی آگئی ہے۔

لیفٹننٹ گورنر کو انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی تقریر اور تبادلے کے اختیارت حاصل ہیں۔

اس کے علاوہ اگر جموں و کشمیر کی حکومت کسی کے خلاف مقدمہ چلانا چاہے یا کسی عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا چاہے تو اس کے لیے بھی پہلے لیفٹننت گورنز کی اجازت لینا ضروری ہوگا۔

بڑے سیاسی چہروں کی ناکامی

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کو انتخابات میں صرف تین نشستیں ملی ہیں۔

جماعت کے ہارنے والے امیدواروں میں پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کی بیٹی اور میڈیا ایڈوائزر التجا مفتی بھی شامل ہیں۔

بی جے پی کی مرکزی قیادت کے قریب سمجھے جانے والے جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر سید الطاف بخاری کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون کپوارہ کے حلقے سے انتخاب ہار گئے ہیں لیکن انہوں نے ہندواڑہ سے اپنی آبائی سیٹ ایک بار پھر جیت لی ہے۔

انتخابات میں سابق وزرا سمیت کئی اہم سیاسی رہنما اپنی نشستیں ہار گئے ہیں۔

جموں و کشمیر عوامی اتحاد پارٹی نے 44 نشستوں پر انتخاب لڑا تھا لیکن اسے صرف ایک پر کامیابی ملی ہے۔

اس جماعت کے لیڈر انجینئر رشید نے نئی دہلی کے تہاڑ جیل سے رہائی ملنے کے فوری بعد کشمیر آکر اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے ایک زور دار مہم شروع چلائی تھی۔

پارٹی سربراہ شیخ عبد الرشید جو انجینئر رشید کے نام سے جانے جاتے ہیں اگست 2019 سے بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی نیشنل انوسٹیگیشن ایجنسی یا این آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ انہیں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔

رواں برس جون میں بھارت کے عام انتخابات میں انجینئر رشید نے تہاڑ جیل میں اسیری کے دوران ہی عمر عبد اللہ کو لوک سبھا کی نشست پر شکست دی تھی۔

کشمیر کے الیکشن میں مہم میں حصہ لینے کے لیے انجینئر رشید کو دِلّی کی ایک خصوصی عدالت کی طرف سے ضمانت پر رہا گیا تھا جس کے بعد سے ان کے مخالفین ان پر بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا برملا الزام لگا رہے تھے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہی تاثر الیکشن میں انجینئر رشید کی پارٹی کے ناکام ہونے کا باعث بنا۔

کشمیر میں عام آدمی پارٹی

اس الیکشن کی اہم بات یہ بھی تھی کہ اس میں علحیدگی پسند دھڑوں سے وابستہ کئی اہم چہرے بھی میدان میں سرگرم نظر آئے۔

ان میں سے بعض رہنما الیکشن میں حصہ لینے پر زور دیتے رہے جبکہ 20 سے زائد امیدوار بن کر میدان میں اترے۔ ان رہنماؤں کا تعلق انہین جماعتوں سے ہے جو گزشتہ 35 برس کے دوران بھارتی آئین کے تحت ہونے والے ہر الیکشن کا بائیکاٹ کرتی آئی ہیں۔

لیکن ان امیدواروں میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے بلکہ بیشتر کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئی ہیں۔

اس کے مقابلے میں دہلی کے سابق وزیرِ اعلیٰ اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی کے ایک مقامی رکن معراج ملک نے ڈوڈ کی سیٹ پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔

انہوں نے بی جے پی کے گجے سنگھ رانا کو چار ہزارسے زائد ووٹوں کی اکثریت کے ساتھ شکست دی ہے اور ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG