پیر کی شام دارالحکومت سری نگر سے 27کلومیٹر دور سری نگر مظفر آباد شاہراہ پر واقع پَلہالن کے مقام پر مسلمان مظاہرین پر کی گئی پولیس فائرنگ میں چار افراد کی ہلاکت کے بعد وادی ٴکشمیر کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو ابھی جاری ہے۔
دوسری طرف، سری نگر کے ساتھ ساتھ کئی شہروں اور قصبہ جات میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے اور بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر ہزاروں کی تعداد میں نیم فوجی دستے اور مسلح پولیس کے سپاہی سڑکوں اور گلی کوچوں میں لوٹ آئے ہیں۔
سری نگر کے معصومہ علاقے، پَلہالن اور سری نگر مظفر آباد شاہراہ پر واقع بعض دوسرے مقامات پر اور سوپور اور شپیاں شہروں میں آج منگل کو دِن بھر مشتعل ہجوموں اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔تقریباً دو درجن افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔
مساجد اور خانقاہوں میں نمازِ تراویح اور شبِ قدر کی تقریبات کے بعد شہریوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور پولیس اور نیم فوجی دستوں پر پتھراؤ کیا۔
ایک پولیس ترجمان کے مطابق نوجوان نے سری نگر کی دوپولیس اسٹیشنوں اور سوپور کی ایک پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا جب کہ سری نگر میں ہی بھارتی پولیس سی آر پی ایف کی ایک چوکی کو ہدف بنایا گیا۔
تازہ ہلاکتوں کے بعد نئی دہلی کے زیرِ انتظام وادیٴ کشمیر میں گذشتہ تین ماہ سے جاری ایجی ٹیشن کے دوران پولیس فائرنگ میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 69ہوگئی ہے اور اِس کے ساتھ ہی کرفیو، احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کے نتیجے میں بازاروں میں عید سے پہلے کی رونقیں غائب ہوگئی ہیں۔