رسائی کے لنکس

بی جے پی کی کامیابی سے تنازع کشمیر کے حل کی توقعات بڑھ گئیں


سری نگر کے ایک مضافاتی پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کا ہجوم، 18 اپریل 2019
سری نگر کے ایک مضافاتی پولنگ اسٹیشن پر ووٹروں کا ہجوم، 18 اپریل 2019

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے بھارت کے عام انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی تاریخی جیت پر ملا جُلا رد عمل ظاہر کیا ہے۔

سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبد اللہ نے بی جے پی کی کامیابی کو "ستاروں والی" کامیابی قرار دیتے ہوئے اسے اور قومی جمہوری محاذ کو مبارکباد دی اور یہ امید ظاہر کی کہ اس فیصلہ کن مینڈیٹ کو بہتر احتساب اور کشمیر کو درپیش مسائل کے حل کے لیے انتہائی ذمہ داری اور زمینی حقائق کے مطابق استعمال کیا جائے گا۔

عمر عبداللہ کے والد فاروق عبد للہ نے، جو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے تین بار وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں اور سری نگر کی پارلیمانی نشست پر ایک مرتبہ پھر منتخب ہوئے ہیں، کہا کہ وہ اور ان کی جماعت نیشنل کانفرنس بی جے پی کو ریاست کی خصوصی آئینی پوزیشن کو ختم کر نے کی اجازت نہیں دے گی اور نہ ہی بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششوں کو کامیاب ہونے دیا جائے گا-

نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں مسلم اکثریتی وادئ کشمیر کی تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے جب کہ بی جے پی کے امیدواروں کو ریاست کے جموں خطے کی دونوں نشستوں پر، جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے، مخالف امیدواروں پر برتری حاصل تھی۔

علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اپنے آبائی حلقے اننت ناگ سے انتخاب ہار گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ان سے ناراض ہونے کا پورا حق حاصل ہے اور وہ ان کے فیصلے کو عاجزی کے ساتھ قبول کرتی ہیں۔

بی جے پی کی مقامی قیادت نے پارٹی کی تاریخی جیت کو قوم پرستی کی جیت قرار دیا ہے۔ پارٹی کے ریاستی یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے جمو ں میں نامہ نگاروں کو بتایا ۔" یہ ووٹ قوم پرستوں اور ملک دشمن عناصر کے درمیان لڑائی میں قوم پرستوں کے لیے ہے۔ یہ ملک کے عوام کی فتح ہے۔ یہ قوم پرستی کی جیت ہے"

بھارتی انتخابات میں بی جے پی کو تاریخی اور فیصلہ کُن کامیابی حاصل ہونے پر استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ اس کامیابی کو مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے ساتھ اختلافات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کے لیے بروئے کار لایا جائے گا اور اس سلسلے میں جرات مندانہ قدم اٹھائے جائیں گے تاکہ جنوبی ایشیا میں دائمی امن قائم کیا جا سکے۔

سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا "یہ بالکل واضح ہے کہ بھارت کے عوام نے بی جے پی کو ایک مضبوط مینڈیٹ دیا ہے۔ بی جے پی کی سرکار کشمیر کے مسئلے سے فوجی طاقت کے ذریعے نمٹنے کی کوشش کرتی رہی ہے، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اب اس بات کو تسلیم کیا جائے گا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا حل طاقت، تشدد اور فوجی قوت کے ذریعے نہیں نکالا جا سکتا- ہم امید کرتے ہیں کہ بی جے پی کی سوچ اور پالیسی میں مثبت تبدیلی آئے گی "

کشمیر کی مجموعی صورتِ حال پر بی جے پی کی جیت کے ممکنہ اثرات پر تجزیہ نگار اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر میں شعبہ قانون اور بین الاقوامی مطالعہ کے پروفیسر شیخ شوکت حسین نے کہا، " دنیا بی جے پی کے پانچ سالہ دورِ حکومت کا اثر پہلے ہی دیکھ چکی ہے۔ کشمیر ہندوستان سے مکمل طور پر بد دل ہو چکا ہے۔ جب سے نئی دہلی میں بی جے پی کی حکومت آئی، کشمیر میں علحیدگی پسندی کا رجحان بڑھ گیا۔ لیکن اب یہ امید ہے کہ بی جے پی اس جیت کا فائدہ اٹھا کر کشمیر کے مسئلے کا کوئی حل نکال لے گی، جیسا کہ عمران خان نے بھی کہا ہے کہ مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے اس مسئلے پر پیش رفت ہو سکتی ہے۔"

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG