رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں جنسی زیادتی کے بعد معصوم بچی کے قتل پر کشیدگی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اس گھناونی حرکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے مندر کے نگران سانجی رام اور ایک اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت چھہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ مقامی پولیس کے ایک سب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹیبل کو بھی کیس سے متعلق ثبوت مٹانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

بھارت کے جونیئر وزیرِ خارجہ جنرل (ر) وی کے سنگھ نے اعتراف کیا ہے کہ دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی ایک کم سن لڑکی آصفہ بانو کو ’ ہم نے انسانوں کی حیثیت سے دھوکہ دیا ہے‘۔ تاہم انہوں نے یقین دلایا کہ آصفہ کے ساتھ انصاف ہو گا۔

وی کے سنگھ نے جو بھارتی بّری فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں جمعرات کو ایک ٹویٹ میں کہا –’ہم نے انسانوں کے حیثیت سے آصفہ کو دھوکہ دیا ہے۔ لیکن اسے انصاف سے محروم نہیں کیا جائے گا‘۔

اس سے پہلے ریاستی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا’ لوگوں کے ایک گروپ کی غیر ذمہ دارانہ حرکتیں اور بیانات قانون میں رخنہ نہیں ڈال سکتے بلکہ اس کیس کے سلسلے میں مناسب طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ، تحقیقات تیزی کے ساتھ چل رہی ہے اور انصاف کیا جائے گا‘۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے ایک گاؤں رسانہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو اس سال17 جنوری کو اچانک لاپتا ہوگئی تھی۔ ایک ہفتے بعد اُس کی لاش گاؤں کے مضافات میں جھاڑیوں میں پڑی ہوئی ملی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اُسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلےاُس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔

اس گھناونی حرکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے مندر کے نگران سانجی رام اور ایک اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت چھہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ مقامی پولیس کے ایک سب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹیبل کو بھی کیس سے متعلق ثبوت مٹانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کی کرائم برانچ نے، جسے تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، پیر کو رات کی تاریکی میں کٹھوعہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر جاکر کیس کے سلسلے میں فردِ جرم دائر کی ۔ کیونکہ مقامی ہندو وکلاء نے دن کے دوران عدالت کے باہر ہنگامہ کیا تھااور پولیس کو فردِ جرم دائر کرنے سے زبردستی روکا تھا۔

اس سے پہلے ملزموں کی حمایت میں اور ان کی رہائی پر زور ڈالنے کے لئے علاقے میں کئی جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے ۔ اس طرح کے ایک جلوس کے دوران شرکاء نے بھارت کا قومی پرچم لہرایا تھا جس پر بعض حلقوں نے شديد ردِعمل ظاہر کیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ملزموں کی حمایت کرنے کی سرگرمی کو شرمناک اور مظاہروں کے دوراں بھارت کا قومی پرچم لہرانے کو توہین آمیز قرار دے دیا تھا۔

لیکن چند روز بعد ہی وزیرِ اعلیٰ کو اُس وقت سبکی اُٹھانا پڑی تھی جب اُن کی کابینہ میں شامل حلیف جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے دو سینیر وزیروں چوہدری لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا نے ملزموں کے حق میں نکالی جانے والی ایک ریلی میں شرکت کی اور مبینہ طور پر مقامی ہندوؤں کو علاقے میں رہائش پذیر گلہ بانوں کے خلاف اُکسایا۔

تاہم ان وزرا نے بعد میں کہا تھا کہ وہ صرف اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں کہ کیس کی تحقیقات نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کی بجائے بھارت کے وفاقی تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کرائی جائے کیونکہ مقامی آبادی کو مقامی پولیس پر بھروسا نہیں ہے۔

پولیس کی طرف سے عدالت میں دائر کی گئی فردِ جرم میں کہا گیا ہے کہ آصفہ کے ساتھ زیادتی اور قتل کا مقصد مقامی مسلمانوں کو جو بکروال اور گجر طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اقلیت میں ہیں، علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا۔

جنرل (ر) سنگھ کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے جموں کے ایک سماجی کارکن اور وکیل طالب حسین نے اسے حکومت اور حکمران بی جے پی کا ’دوغلا پن‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا۔ ’بی جے پی کے دو سینیر وزیر کُھلے عام ملزموں کی حمایت کرتے ہیں اور مقامی ہندوؤں کو اقلیتی مسلمان فرقے کے خلاف اُکساتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ کہہ کر آصفہ کے ساتھ کی جانے والی گھناؤنی حرکت اور وحشیانہ قتل کا دفاع کرتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کا پیش آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن حکومت اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہے اور ان وزرا کے خلاف کارروائی تو درکنار ان کے خلاف دو لفظ بھی نہیں بولے جاتے ہیں‘۔

طالب حسین نے مزید کہا۔ ’ آصفہ کیس کی گونج اب ملک اور ملک کے باہر بھی سنائی دینے لگی ہے اور وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ وی کے سنگھ پیدا شدہ اثرات کو کم کرنا اور اُن لوگوں کو، جو بھارت کے اندر بھی اور بیرونی ممالک میں بھی آصفہ کو انصاف دلانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں دھو کہ دینا چاہتے ہیں‘۔

طالب حسین کے مطابق وی کے سنگھ کے بیان کو اس پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے ذریعے کرانے کے مطالبے کو لے کر جموں کے وکلاء کی تنظیم جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بدھ کے روز عام ہڑتال کی اپیل کا اثر چند علاقوں ہی تک محدود رہا۔

تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر کے بیان سے اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو آصفہ کو انصاف دلانے کے کوششیں کررہے ہیں۔ انہیں یہ بھی توقع ہے کہ اس بیان سے حکمران بی جے پی میں شامل ایسے افراد کو لگام دینے کے لئے راہ ہموار ہوگی جو مذہب کی آڑ لے کر آصفہ کے ساتھ پیش آئے واقعے کو جائر قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں اور ملزموں کا دفاع کرتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG