رسائی کے لنکس

بھارت میں کرونا کی صورتِ حال بدستور تشویش ناک، آکسیجن کی 'بلیک' میں فروخت کی شکایات


بھارت میں کرونا کیسز میں یومیہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تین لاکھ 52 ہزار 991 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی جب کہ 2,812 افراد وبا کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔

بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا ہونے والی سنگین صورت حال میں امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، فرانس، سنگاپور، جرمنی، ڈنمارک، روس اور یورپی یونین نے بھارت کی امداد کے اعلانات کیے ہیں۔

پاکستان اور چین کی جانب سے بھی بھارت کو مدد کی پیش کش کی گئی ہے۔

کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا ہونے والی صورتِ حال میں بھارت کو سب سے زیادہ آکسیجن اور ویکسین کی ضرورت ہے۔

بھارت کے دارالحکومت دہلی کے متعدد اسپتالوں نے مریضوں کے دباؤ کے باعث مزید مریض داخل نہ کرنے کے نوٹس چسپاں کر دیے ہیں۔

دوسرے ملکوں سے آکسیجن کی فراہمی

امریکہ صدر جو بائیڈن نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ان کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بات ہوئی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے بھارتی وزیراعظم کو کرونا کی مشکل صورت حال کے دوران ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔

برطانیہ نے 295 آکسیجن کنسینٹریٹر، 120 ’نان ان ویسیو‘ اور 20 مینول وینٹی لیٹرز، ادویات اور دیگر ساز و سامان کے ساتھ پہلی کھیپ اتوار کو روانہ کی ہے۔

توقع ہے کہ یہ امدادی سامان منگل کو بھارت پہنچ جائے گا اس کے بعد امدادی سامان کی مزید کھیپ بھی فراہم کی جائے گی۔

برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ برطانیہ اس مشکل گھڑی میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔

بھارت میں کرونا وبا کی شدت کے باعث آکسیجن کی قلت ہے۔
بھارت میں کرونا وبا کی شدت کے باعث آکسیجن کی قلت ہے۔

سعودی عرب نے 80 میٹرک ٹن آکسیجن بھارت کے لیے روانہ کی ہے۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلینڈر اور دیگر آلات بھی بھجوائے ہیں۔ یہ اشیا اڈانی گروپ اور ٹاٹا گروپ کے توسط سے بھیجی گئی ہیں۔

ریاض میں بھارتی سفارت خانے نے امدادی سامان فراہم کرنے پر سعودی حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔

سنگاپور سے طبی آلات اتوار کو ہی بھارت پہنچ گئے ہیں۔ ان میں آکسیجن کنسینٹریٹر اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ آکسیجن کنسینٹریٹر ہوا سے آکسیجن جمع کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی آکسیجن سلینڈر سپلائی کیے جا رہے ہیں۔ وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور انڈین ایئر فورس اس سلسلے میں تعاون کر رہے ہیں۔

اسی طرح جرمنی، ڈنمارک، فرانس اور یورپی یونین کی جانب سے بھی امداد کی سپلائی شروع کی جا رہی ہے۔

’جن کے پاس آکسیجن ہو وہی اسپتال آئیں‘

دہلی میں اسپتالوں کی جانب سے نئے مریضوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔

کئی اسپتالوں نے مزید مریض داخل نہ کرنے کا نوٹس چسپاں کر دیا ہے جب کہ متعدد اسپتالوں نے کہا ہے کہ جن مریضوں کے پاس سلینڈر اور آکسیجن ہو وہی اسپتال آئیں۔

اس صورتِ حال نے کرونا مریضوں کی بے بسی میں اضافہ کر دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس وقت کم و بیش 50 ہزار مریض اپنے گھروں پر ہی ڈاکٹروں کی نگرانی میں زیرِ علاج ہیں۔ لیکن ان کے سامنے بھی سب سے بڑا مسئلہ آکسیجن اور ادویات ہی کا ہے۔

سلینڈروں کی بلیک مارکیٹنگ

کئی متاثرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگ سلینڈروں کی منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے چھ ہزار کا سلینڈر لوگ 40 اور 50 ہزار روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دہلی کی کوئی بھی کالونی ایسی نہیں ہے جہاں سے یومیہ دو چار جنازے نہ اٹھ رہے ہوں۔

دہلی سے متصل غازی آباد کے رہنے والے منور شکوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے چھوٹے بھائی 56 سالہ مظفر شکوری جو ایک صحافی تھے کسی اسپتال میں داخلہ نہ ملنے اور آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے محض دو دن کے اندر دم توڑ گئے۔

انہوں نے بتایا کہ اب ان کی بہن کو بھی کرونا ہو گیا ہے۔ کہیں سے منہ مانگی قیمت دے کر انہوں نے ایک سلینڈر خریدا مگر اب اس کی آکسیجن ختم ہو رہی ہے اور ان کے سامنے اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہاں سے آکسیجن لائیں۔

بھارت میں کرونا: اسپتالوں میں رش اور آکسیجن کی قلت
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:34 0:00

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن کے پاس سلینڈر ہے وہ بلیک میں فروخت کر رہے ہیں۔ ان کے ایک پڑوسی کو کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ سلینڈر ہے۔ انہوں نے سلینڈر لیا اور غازی آباد سے دہلی میں جا کر کہیں سے آکسیجن ڈلوائی۔ لیکن جب گھر لا کر لگایا تو معلوم ہوا کہ اس میں بہت کم آکسیجن تھی جو 15 منٹ کے اندر ختم ہو گئی۔ عام طور پر ایک بڑا سلینڈر چھ گھنٹے تک چل جاتا ہے۔

کمپنیوں کے ساتھ ساز باز کے الزامات

جامعہ نگر علاقے کے 45 سالہ محمد اسمعیل رحمانی نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے کرونا میں مبتلا ہیں۔ ان کے پاس ایک سلینڈر پہلے سے تھا جس کو کسی طرح بھروا کر انہوں نے اپنا کام چلایا۔ اب ان کی حالت بہتر ہے لیکن ان کی اہلیہ اور ان کے چار بچوں کو بھی کرونا ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق ان کی اہلیہ کو آکسیجن لگی ہوئی ہے جو جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ اب انہیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ وہ کہاں سے اسے بھروائیں گے۔

چھ ہزار کا سلینڈر 52 ہزار میں اور وہ بھی خالی

جنوبی دہلی کے سنگم وہار علاقے کے ضیا الدین انصاری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے دوست 59 سالہ محمد مشتاق کا علاج گھر پر ہی ہو رہا ہے۔ لیکن انہیں بھی آکسیجن کا مسئلہ درپیش ہے۔

ان کے بقول ان لوگوں نے کہیں سے ایک سلینڈر 52 ہزار روپے میں خریدا تھا۔ جس ایجنٹ کے توسط سے خریدا گیا۔ اس نے بتایا تھا کہ اس میں آکسیجن ہے۔ لیکن جب گھر لاکر اسے لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ بالکل خالی تھا۔

ان کے مطابق ایک چھوٹے سلینڈر سے فی الحال کام چلایا جا رہا ہے اور ایک خالی سلینڈر کو بھروانے کے لیے بھاگ دوڑ جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تین کمپنیوں سے مایوس ہو کر لوٹ آئے ہیں اب چوتھی کمپنی کے سامنے قطار میں کھڑے ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ بہت سی کمپنیوں نے پرائیویٹ لوگوں کو آکسیجن دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ہدایت دی ہے کہ وہ صرف اسپتالوں کو ہی گیس سپلائی کریں۔

یہی حال ادویات کا بھی ہے۔ ادویات اور انجکشن بھی بلیک میں فروخت کیے جا رہے ہیں۔

بعض مساجد کرونا مراکز میں تبدیل

بعض اطلاعات کے مطابق مہاراشٹرا کے ناگپور اور دوسرے کئی علاقوں میں مسجدوں کے ذمے داروں نے کرونا مریضوں کے لیے انتظام کیا ہے۔

ایسا انتظام ان مسجدوں میں کیا جا رہا ہے جو بند ہیں اور جن میں مریضوں کی آمد و رفت کے لیے الگ راستہ ہے۔

ادھر مدراس ہائی کورٹ نے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے کرونا وبا کے دوران پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کرانے اور انتخابی ریلیاں نکالنے کی اجازت دینے پر الیکشن کمیشن پر سخت تنقید کی ہے۔

عدالت نے کہا کہ کرونا کی دوسری لہر کے لیے تنہا الیکشن کمیشن ذمے دار ہے۔ کمیشن کے عہدے داروں کے خلاف قتل کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

پروازوں پر پابندی

کرونا کیسز میں اضافے کی وجہ سے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنا بھارت کا دورہ منسوخ کردیا تھا۔ جب کہ برطانیہ، متحدہ عرب امارات، کینیڈا، جرمنی اور نیدر لینڈ نے بھارت سے آنے والی پروازوں پر پابندی لگا دی۔

ادھر بنگلہ دیش نے بھارت میں کرونا کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے بھارت سے متصل اپنی سرحد بند کر دی ہے اور لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG