رسائی کے لنکس

کیا بھارتی آرمی چیف کا طالبان سے متعلق بیان خارجہ امور میں مداخلت ہے؟


بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت، فائل فوٹو
بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت، فائل فوٹو

’’جنرل بپن راوت بعض اوقات ایسے بیانات دے دیتے ہیں جو یہاں کے فوجی سربراہ عام طور پر نہیں دیتے۔ ان کے بیانات سے کبھی کبھار ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنی حدود سے باہر نکل کر گفتگو کر رہے ہیں۔‘‘

بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اپنے متنازعہ بیانات کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جب کئی ممالک طالبان سے بات کر رہے ہیں تو بھارت کو بھی مذاكرات کرنے چاہئیں۔ ان کے اس بیان پر کچھ تجزیہ کاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا بپن راوت خارجہ امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔

بپن راوت کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ وہ سابقہ فوجی سربراہوں سے الگ ہیں اور اپنی بات کھل کر رکھتے ہیں۔ اسی لیے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار سے باہر نکل کر بیانات دے رہے ہیں۔

طالبان سے مذاكرات کے سلسلے میں ان کے بیان کے حوالے جب ہم نے لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد سے بات کی اور یہ جاننا چاہا کہ کیا آرمی چیف نے مذکورہ بیان دے کر خارجہ امور میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے تو انہوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ جس جگہ بھارتی سفارت خانہ ہوتا ہے جیسا کہ افغانستان میں ہے، وہاں فوج کا ایک نمائندہ بھی ہوتا ہے جسے ملٹری اتاشی کہتے ہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں اپنا تجزیہ آرمی انٹیلی جینس کے پاس بھیجتا ہے اور اس کا یہاں جائزہ لیا جاتا ہے۔

اس بارے میں آرمی کی جو رائے ہوتی ہے وہ حکومت کو دی جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم الگ سے کچھ کر رہے ہیں یا فوج حکومت کے کاموں میں مداخلت کر رہی ہے۔ ان کا بیان ملٹری اتاشی کے جائزے کے مطابق ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں فوج اور حکومت کے کام الگ الگ ہیں۔ بھارت کی یہ روایت رہی ہے کہ فوج حکومت کے امور میں مداخلت نہیں کرتی اور وہ روایت قائم ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آ رہی ہے۔ اگر فوج کی جانب سے کوئی بیان آتا ہے تو اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ فوج کسی معاملے کو کیسے دیکھ رہی ہے۔

ایک سینیر دفاعی تجزیہ کار مکیش کوشک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل بپن راوت بعض اوقات ایسے بیانات دے دیتے ہیں جو یہاں کے فوجی سربراہ عام طور پر نہیں دیتے۔ ان کے بیانات سے کبھی کبھار ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ اپنی حدود سے باہر نکل کر گفتگو کر رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے بیان کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں جو روایت رہی ہے وہ اس سے ہٹ رہے ہیں۔ البتہ آرمی چیف نے طالبان کے ساتھ مذاكرات کی حمایت والا بیان دے کر حکومت کے سامنے ایک سوچ رکھی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس معاملے میں ہم لوگوں کی شمولیت کتنی ہے۔

مکیش کوشک نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ بپن راوت جوش میں مذکورہ بات کہہ گئے ہوں۔ لیکن انہوں نے اپنی سالانہ نیوز کانفرنس سے قبل بھی رائسینہ ڈائیلاگ میں یہی بات کہی تھی اور طالبان سے بھارت کے مذاكرات کی وکالت کی تھی۔

مکیش کوشک نے کہا کہ انہیں یہ نہیں لگتا کہ جنرل بپن راوت نے مذکورہ بیان دے کر خارجہ امور میں کوئی بہت بڑی مداخلت کی ہے۔

آرمی چیف اس سے قبل سیاسی بیانات بھی دے چکے ہیں۔ انہوں نے فروری میں ریاست آسام میں ایک مسلم سیاسی جماعت اے آئی یو ڈی ایف کے ابھار پر متنازع بیان دیا تھا اور آسام میں تارکین وطن کی مبینہ دراندازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مخصوص جماعت نے ایک مقررہ مدت میں بی جے پی سے کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔

ان کے اس بیان پر متعدد سیاست دانوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت نہ کریں۔ کانگریس نے ان کے بیان کی مذمت اور بی جے پی نے ستائش کی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG