مُشتبہ عسکریت پسندوں نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں حکمران پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے مقامی لیڈر عبدالغنی ڈار کو نزدیک سے گولی مار کر شدید طور پر زخمی کر دیا۔ اُنہیں دارالحکومت سرینگر کے ایک سرکاری اسپتال لایا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔ ڈار پی ڈی پی کے ضلع صدر تھے ۔
یہ واقعہ ایک ایسے دِن پیش آیا جب ’پی ڈی پی‘ کی صدر اور صوبائی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کرکے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی اور امن و قانون کی صورتِ احوال پر تبادلہ ٴخیال کیا۔ بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں میں مشاہدے میں آنے والی شدت اور تشدد کے واقعات میں حالیہ اضافے کے پس منظر میں ہوئی۔ اس ملاقات کو بھارت کے سیاسی حلقوں میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے، جبکہ ذرائع ابلاغ کے ایک حصے میں صوبے میں گورنر راج نافذ کئے جانے کی قیاس آرائی کی جانے لگی ہے۔
لیکن، بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جنرل سکریٹری رام مادھو وارانسی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس کے اتحادی جماعت ’پی ڈی پی‘ کے ساتھ کوئی اختلافات نہیں اور صوبے میں ’بی جے پی-پی ڈی پی‘ مخلوط حکومت کے بارے حال ہی میں بعض متنازعہ باتیں رابطوں میں خامی کی وجہ سے سامنے آئی تھیں۔
خود محبوبہ مفتی نے بتایا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں صورتِ حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے اس کا سیاسی حل ڈھونڈنا ہوگا اور اس مقصد کے لئے مزاکرات شروع کرنا ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سابق وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کی وضع کردہ وہ پالیسی راہنمائی فراہم کر سکتی ہے جس کے تحت کشمیر کے مسئلے کو انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت یعنی کشمیر کی مخصوص روایات اور اقدار کے دائرے میں حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔
ادھر پیر کو سرینگر میں طالب علموں اور حفاظتی دستوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر جھڑپیں ہویئں، جن میں ایک درجن سے زائید طلبہ اور چند پولیس والے زخمی ہوگئے۔ عہدیداروں کے مطابق زخمی پولیس والوں میں سرینگر کا سینئر سُپرانٹنڈنٹ امتیاز اسماعیل بھی شامل ہے۔ جھڑپوں کے دوران پولیس نے نصف درجن کے قریب طلبہ کو گرفتار کرلیا ۔عینی شاہدین کے مطابق، بعض طلباء سے شدید مارپیٹ کی گئی۔
اطلاعات کے مطابق ، جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب، سرینگر کے سری پرتاپ ہائیر سیکنڈری اسکول کے طلبہ کیمپس سے باہر آکر گزشتہ دنوں حفاظتی دستوں کی طرف سے ان کے ساتھیوں پر کی گئی مبینہ زیادتیوں کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ مسلح پولیس ان کے راستے میں آگئی اور انہیں منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس چھوڑی۔ طلبہ نے پولیس والوں پر پتھراؤ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرے اور حفاظتی دستوں پر سنگباری کا سلسلہ قریبی علاقوں مولانا آزاد روڈ، ریگل چوک، ریذیڈنسی روڈ اور پھر سرینگر کے تاریخی مرکزی مقام لال چوک تک پھیل گیا اور اس میں ان علاقوں کے نوجوان بھی شامل ہوگئے۔
بتایا جاتا ہے کہ مولانا آزاد روڈ پر واقع گورنمنٹ زنانہ کالج کی طالبات نے بھی کلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور سڑکوں پر آکر حکومت اور پولیس مخالف مظاہرے کئے۔ طلبہ ہی کی طرح وہ بھی بھارت سے آزادی چاہیئے کا نعرہ لگارہی تھیں۔ جب حالات قابو سے باہر جانے لگے تو پولیس اور اس کے معاون نیم فوجی دستوں نے درجنوں ٹیئر اور پیپر گیس کے گولے داغے اور ہوا میں فائرنگ کی۔ پورے علاقے میں دِن بھر افراتفری کا عالم رہا اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
شورش زدہ وادئ کشمیر میں تعلیمی ادارے تقریباً ایک ہفتے تک بند رہنے کے بعد پیر کو دوبارہ کھول دیئے گئے تھے۔ انہیں طالب علموں میں پائی جانے والی بے چینی اور ان کی طرف سے دارالحکومت سرینگر کے ساتھ ساتھ وادئ کشمیر کے دوسرے شہروں اور قصبہ جات میں کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کے بعد مظاہرے کرنے اور حفاظتی دستوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے جانے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔ وہ اس ماہ کی پندرہ تاریخ کو جنوبی شہر پلوامہ میں ایک مقامی کالج کے طلبہ اور طالبات مظاہرین پر حفاظتی دستوں کی طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں 50 سے زائید ساتھیوں کے زخمی ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج پلوامہ کے طالبعلموں نے الزام لگایا تھا کہ کیمپس کے مرکزی دروازے کے باہر تعینات کئے گئے حفاظتی دستے انہیں ہراسان کررہے تھے اور جب وہ اس کے خلاف اور پولیس ناکہ ہٹائے جانے کے مطالبے کے حق میں پُرامن طور پر مظاہرہ کرنے لگے تو حفاظتی دستوں نے اُن پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا – پولیس نے الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ اس کے بقول شر پسندوں نے اس پر پتھر پھینکے تھے۔